• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کے لیے کرائے کی بندوق نہیں ہے، پاکستان بہت امریکا کی جنگ لڑچکا اب وہ کریں گے جو ملک کے مفاد میں ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو تاریخی حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت تھی، ان سے ٹوئٹر پیغامات ٹوئٹر جنگ نہیں تھی ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، اب ہم وہ کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے مفاد میں بہتر ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ جب حکومت میں آیا تو سیکیورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی، وقتاً فوقتاً امریکا سے کہا کہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ انہیں چیک کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں، پاکستان میں 27لاکھ افغان مہاجرین اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں،پاک افغان بارڈر کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے، پاک افغان سرحد سے دہشت گردوں کی آمدو رفت مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 1989ء میں جب سویت یونین افغانستان سے نکلا تو امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا، ہم چاہتے ہیں کہ امریکا افغانستان سے جلد بازی میں نہ نکلے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ امریکا افغانستان میں پہلے حالات ٹھیک کرے پھر تعمیر نو کے لیے بھی امریکا کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں، سپر پاور کے ساتھ اچھے تعلقات کون نہیں چاہے گا؟

وزیر اعظم پاکستان کا انٹرویو دیتے ہوئے کہنا ہے کہ روس کے افغانستان سے جانے کےبعد عسکریت پسندوں اور 40لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالنے کی بات کرنا آسان ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، اگر ہم نائن الیوں کے بعد غیرجانبدار ہوتے تو بڑی تباہی سے بچے رہتے۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا کر ملک کو جہنم بنا لیا، اس جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان سرمایہ کار اور اسپورٹس ٹیمز کے آنے سے بھی محروم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ امریکی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تو امریکامخالف قرار دیے جاتے ہیں، میں خوش ہوں کہ اب ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ افغان مسئلے کا صرف سیاسی حل ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ 1989ء میں افراتفری کے نتیجے میں ہی طالبان سامنے آئے تھے، طالبان نے واضح طورپر کہا ہے کہ افغانستان کی تعمیر نو میں امریکی امداد کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے امریکی اخبار کو بتایا کہ چین سے ہمارےتعلقات صرف ایک سمت میں نہیں، پاکستان سےچین کےتجارتی تعلقات ہیں اور ایسے ہی تعلقات ہم امریکا سے بھی چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ امریکا نے پاکستان کو خود سے دور کیا ہے، امریکی پالیسی سے اتفاق نہیں کرنے کا مطلب امریکا مخالف ہونا نہیں ہے،آپ ہمارے ساتھ ہو یا نہیں، یہ ایک استعماری رویہ ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کون ڈرون حملوں کامخالف نہیں ہوگا؟ کون اپنے ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دے گا؟ ایک ڈرون حملے میں ایک دہشت گرد کے ساتھ 10 ہمسایوں اور دوستوں کو بھی مار دیتے ہیں۔

وزیر اعظم کا مزید کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کا قتل صرف قتل نہیں بلکہ پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا، امریکی اتحادی ہونے کے باوجوداسامہ کی ہلاکت میں پاکستان پر اعتماد نہ کرنا تضحیک آمیز تھا۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ امریکی جنگ میں شامل ہونے پر پاکستان کے فوجی اور شہری بم حملوں کا نشانہ بنے۔

تازہ ترین