• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مادام کیوری‘‘ دو بار نوبل انعام یافتہ سائنسدان

عالمی شہرت یافتہ خاتون سائنسدان مادام میری کیوری نے جو ریڈیم دریافت کیا تھا، وہ کینسر کے علاج میں بہت مفید ثابت ہوا اور وہ اپنی اس دریافت کو کسی بھی کمپنی کو لاکھوں پاؤنڈز میں فروخت کر سکتی تھیں لیکن انہوںنے ایسا نہ کیا۔ ا نہوںنے اپنی ایجاد کے عوض ایک پائی بھی وصول نہ کی اور کہا کہ یہ سائنس کے جذبے اور مقصد کے برعکس ہوگا۔ لالچ اور امارات کو چھوڑ کر انہوں نے انسانی خدمت کا راستہ اپنایا اوراسی بے لوث خدمت کے باعث خدا نے انہیںاتنی شہرت عطا فرمائی کہ1903ء میں فزکس اور 1911ء میں کیمسٹری میں نمایاں کام کرنے پرانہیںنوبل انعام سے نوازا گیا۔

ابتدائی حالات

میری کیوری7نومبر 1867ء کووارسا، پولینڈ میںپیدا ہوئیں ۔ جب وہ 19برس کی ہوئیں تو ایک امیر گھر میں ملازمت کر لی تاکہ تعلیم کے اخراجات پورے کر سکیں۔ ملازمت میں گھر کے تمام کاموں کے ساتھ ایک دس سالہ بچی کی دیکھ بھال بھی شامل تھی ۔جس گھر میں وہ ملازمہ تھیں، وہاں مالکن کا بیٹا انہیں پسند کرنے لگا اور میری کیوری کو شادی کی پیشکش کردی۔ یہ بات جب اس کے والدین تک پہنچی تو انھوں نے سارے نوکر اکھٹے کیے اور ان کے سامنے میری کیوری پر الزام لگاکر ان کی بے عزتی کی اور کہا کہ ملازمہ ہو کر مالکہ بننے کی سوچ رہی ہو۔ اس دن انہیں غربت کا احساس ہوا کہ غریب ہونا کتنا بڑا جرم ہے ۔سچائی صرف وہ ہے جو دولت مند کہے کیونکہ میری اس امیر زادے میں نہیں بلکہ امیر زادہ اس میں دلچسپی لے رہا تھا۔ یہاں سے نوکری ختم ہونے کے بعدانھوں نے اپنا شہراور ملک بھی چھوڑ دیااور اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس کی شہریت اختیار کر لی۔

جدوجہد سے بھرپور زندگی

شرمیلی اور انتہائی غر بت کی ماری میری کیوری نے1881ء میں پیرس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنی زندگی کو سائنس کے لیے وقف کر دیا۔ وہ اتنی شرمیلی تھیں کہ کوئی دوست بھی نہ بنا سکیں۔ حالات اتنے خراب تھےکہ وہ 3شیلنگ کے حساب سےروزانہ خرچ کرتیں اور ان 3 شیلنگ میں کمرے کا کرایہ،خوراک،لباس اور یونیورسٹی کے اخراجات سب شامل تھے۔ ان کا کمرہ بھی انتہائی خراب حالت میں تھا، جسے گرم کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔وہ سردی کے موسم میں کوئلے کی دو بوریوں سے زیادہ نہ خرید سکتی تھیں، ان کو بچا بچا کر استعمال کرنا پڑتا اور اسی وجہ سے کئی با ر شدید سردی میں وہ بغیر آتش دان کے پڑھتی رہتیں۔ سوتے وقت جب انہیں زیادہ سردی لگتی تو اپنے آپ کو گرم کرنے کے لیے صندوق میں سے سارے کپڑے نکال کر کچھ چارپائی پر بچھا دیتیں،کچھ اپنے اوپر اوڑھ لیتیں اورپھربھی سردی کم نہ ہونے پر کرسی اپنے اوپر رکھ لیتیں جس کے وزن سے انہیں سردی کم محسوس ہوتی۔وقت کے ضیاع اور حالات کی تنگی کے باعث وہ کئی کئی روز فقط ڈبل روٹی اور مکھن پر گزارا کرتیںاور کئی بار کمزوری کی وجہ سے بے ہوش بھی ہوجاتیں۔

ایک دن کلاس میں بھوک کی وجہ سے میری بے ہوش ہوئیںتو ان کے استاد کو اس بات کا علم ہوا، وہ خود بھی غریب تھے لیکن انہوں نے میری کیوری کی مدد کی۔ 1895ء میں مادام کیوری نے انہی سے شادی کی۔ ان کے شوہر پروفیسر پیری کیوری سائنسدان بھی تھے۔ شوہر کے نام کی وجہ سے انھوں نے کیوری اپنے نام کے ساتھ لگایا، دونوں نے مل کر سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔

عظیم دریافت

دونوں نے جولائی1898ء میں یورینیم سے چار سو گنا زیادہ ریڈیائی تابکار کیمیاوی عنصر کی دریافت کا اعلان کیا۔ اپنے وطن کے نام پر اس کو میری نے پولونیم کا نام دیا۔اسی سال دسمبر میں کیوری خاندان نے ایک اور ریڈیائی تابکار کیمیائی جوہر دریافت کیا ۔اس کو انہوں نے ریڈیم کا نام دیا، جس کا ماخذ لاطینی زبان کا لفظ ریڈیئر تھا اوراس کا مطلب ہے شعاعیں برسانے والا۔ میری اور پیری کی یہ جوڑی سائنس میں وہ کام کر چکی تھی، جوان کے نام کو دوام بخشے۔ پیری اپنی بیوی کے کام میں جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے لیکن ایک روز جب وہ پیرس کی سڑک پار کر رہے تھے تو ایک ٹیکسی کی زد میں آ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

مادام کیوری کی عظمت

شادی کے وقت دونوںمیاں بیوی کا کُل اثاثہ دو سائیکل تھیں۔ میری غربت کے اسی عالم میں پی ایچ ڈی تک پہنچ گئیں، انھوں نے پی ایچ ڈی کیلئے بڑا دلچسپ موضوع چنا، انہوںنے فیصلہ کیا وہ دنیا کو بتائیں گی کہ یورینیم سے روشنی کیوں نکلتی ہے۔ یہ ایک مشکل بلکہ ناممکن کام تھا لیکن وہ اس پرجُت گئیںاور تجربات کے دوران انہوں نے ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا، جو یورینیم کے مقابلے میں20لاکھ گنا روشنی پیدا کرتا ہے اور اس کی شعاعیں لکڑی، پتھر، تانبے اور لوہے غرض دنیا کی ہر چیز سے گزر جاتی ہیں۔ انہوں نے اس کا نام ریڈیم رکھا،یہ سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ لوگوں نے ریڈیم کا ثبوت مانگا تو میری اور پیری نے ایک خستہ حال احاطہ لیا، جس کی چھت سلامت تھی اور یہ دونوںچار برس تک اس احاطے میں لوہا پگھلاتے رہے۔ انہوں نے8ٹن لوہا پگھلایا اور اس میں سے مٹر کے دانے کے برابر ریڈیم حاصل کیا۔ یہ چار سال ان لوگوں نے گرمیاں ہوں یا سردیاں، اپنے اپنے جسموں پر جھیلیں، بھٹی کے زہریلے دھوئیں نے میری کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر دیئے لیکن وہ کام میں جتی رہیں اور ہار نہ مانی۔

ریڈیم کینسر کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لے کر آیا۔ جسے آج ہم شعاعوں کا علاج کہتے ہیں، یہ دراصل میری ہی کی ایجادہے۔ اگر وہ لڑکی چار سال تک لوہا نہ پگھلاتی تو آج کینسر کے تمام مریضوں کی زندگی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔یہ خاتون دنیا کی واحد سائنسدان تھیں، جنہیں زندگی میں دوبار نوبل پرائز ملا۔ ان کی زندگی پر اب تک30فلمیں بن چکی ہیں جبکہ سینکڑوں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

تازہ ترین