• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دنیا بھر میں انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے31اکتوبر2003ء کو اعلان کیا تھا کہ ہر سال 9دسمبر کو ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے یعنی انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا جائے گا۔ لہٰذا، اس ضمن میں پہلا ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے 9 دسمبر 2004ء کومیکسیکو میں منایا گیا جو کہ اب ہرسال کرپشن کے خلاف جنگ کے عزم کی ازسرنو تجدید کے ساتھ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے عزم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی اُٹھانا ہے، جس سے کرپشن کی مکمل روک تھام ہو سکے۔

آج کے دور میں بد عنوانی کو حق تصور کیا جاتا ہے، اسے بُرائی اور جُرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ کرپشن پر گرفتار ہر شخص وِکٹری کا نشان بنا کر قانون کا مذاق اُڑاتا نظر آتاہے اور کچھ دنوں بعد لین دین کرکے وہ انتہائی باعزت انداز میں بَری بھی ہو جاتا ہے۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایسی کارکردگی کی وجہ سے معاشرے میں بدعنوانی کو قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر جائز و ناجائز کام کروانے کے لیے رشوت دینے کا عمل اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے۔ رشوت کو حق جبکہ ملاوٹ کو کاروبار سمجھ لیا گیا ہے، اسی لیےان جڑوں کو کاٹنے کی اشد ضرورت ہے۔

بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں بلکہ اسے عقلمندی ،عیاری ،چالاکی ،ذہانت اورہنر سمجھتے ہیں ۔

ہم نے ان برائیوں سے ایک طرح کا سمجھوتہ کر لیا ہے، جس کی ایک صورت دلاور فگار مرحوم کے اس مصرعے میں دیکھی جا سکتی ہے کہ’لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کر رشوت چھوٹ جا‘۔

ملک میں کر پشن اور ناانصافی کے خاتمہ اور ہر کام میرٹ کے مطابق چلانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں بڑھتی ہوئی ما یوسی اور ناامیدی کا خاتمہ کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے ۔

اس تناظر میں اگر ملکی مسائل کا جائزہ لیا جائے تو تمام تر مسائل کرپشن کی پیداوار نظر آتے ہیں ۔ملک و معاشرے سے کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لیے آج تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے کوئی قابلِ قدر اقدامات نہیں کیے، جس کے باعث ملک بھر میں بدعنوانی، کرپشن اور اقرباء پروری کی بدتر صورت حال ہے۔ کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر، حکومتی اداروں میں کرپشن، حصول انصاف کا کمزور نظام، خامیوں سے بھرپور قانون کا نفاذ، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس پایا جاتا ہے۔ عوام کی حکومتی و سرکاری اور عدالتی اداروں پر قائم اعتماد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ملک میں موجود انسداد بدعنوانی کے محکموں کی مایوس کن کارکردگی اور ان سے استفادہ کرنے کا پیچیدہ اور سست طریقہ کارسرکاری اداروں میں کرپشن کا باعث بن رہا ہے۔

جہاں تک اس سرتاپا بدعنوانی میں گھرے ماحول کا تعلق ہے، جس میں ہم سب سانس لے رہے ہیں تو بلاشبہ اسے راتوں رات ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس میں عمومی سطح پر ہم مسلمانوں کے سات سو سالہ خواب غفلت کے اثرات کے ساتھ ساتھ انگریز کی دو سو سالہ غلامی کا وہ دور بھی شامل ہے، جس نے ہمیں آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ہے کہ ہم نہ تو ان کے طرزِ حیات کو پورے طور پر اپنانے کے اہل اور خواہش مند ہیں اور نہ ہی ماضی کی ہماری اپنی قدریں اور اصول عملی طور پر ہماری زندگیوں میں کہیں موجود ہیں۔

موجودہ حکومت کرپشن کے خلاف آواز ضرور بلند کررہی ہے، تاہم روایتی اتحادی جماعتوں کے کندھوں پر کھڑی یہ حکومت کرپشن کے خلاف مؤثر قانون سازی کرپائے گی یا نہیں، یہ ابھی دیکھنا ہوگا۔ نیب کی کارکردگی بھی زبانی جمع خرچ زیادہ اور عملاًکم نظر آتی ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے باعث سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے سماجی اور معاشرتی اسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہےاور انسانی ومذہبی اقدار کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔

اگر ہم اداروں میں میرٹ کو فروغ دیں، رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں،انصاف کی بات کریں، ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی مفاد پر ترجیح دیں، سفارشی کلچر کا خاتمہ کریں، امیری اور غریبی کے فرق کو مٹانے کے لیے کلیدی کردار ادا کریں، ٹیکس چوری، قرضے معافی اور بجلی چوری جیسے اقدامات سے گریز کریں تو تب ہی حقیقی طور پر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن اور ہر پاکستانی خوشحال ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، ترقی یافتہ ممالک کی پیروی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

’Say No To Corruption‘ بلاشبہ یہ بہت بامقصد اور فوری سمجھ میں آنے والا پیغام ہے لیکن کیا ہم اس پر عمل کرنے کو تیار ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر باشعور شخص کو خود سے ضرور پوچھنا چاہیے۔

تازہ ترین