• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی میڈیا پاکستان کی فوج کے اندر انتہا پسند عناصر پر تو بڑی لچھے دار کہانیاں سناتا ہے لیکن جب ان کی اپنی ہی فوج کے اندر وہی کچھ ظہور پذیر ہو جائے تو اس کو کسی اور کھاتے میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ اگر تھوڑے سے معروضی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہا پسندی ایک ہی آگ ہے جو کسی گھر میں شعلہ بن گئی ہے تو کہیں صرف چنگاریوں کی صورت میں سلگ رہی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ شعلوں میں لپٹے گھرکی نسبت سلگتے ہوئے گھر کو بچانا آسان ہے۔المختصر امریکہ اور پاکستان میں انتہا پسندی کا دورانیہ اور وجوہات شاید ایک ہی ہوں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ طوفان میں پاکستان جیسے ناتواں پیڑ ڈھیر ہو جاتے ہیں اور امریکہ جیسے مضبوط جڑوں والے درخت چند شاخیں تڑوا کر اپنے پاوٴں پر کھڑے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم عالمی انتہا پسندی کے پس منظر میں آفاقی طوفان کے خدوخال پر نظر ڈالیں، بہتر ہوگا کہ ہم امریکی فوج اور معاشرے میں انتہا پسند عناصر کا تھوڑا ذکر کریں۔ پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی اسّی کی دہائی کے بعد مذہبی انتہا پسندی کے شعلے بلند ہوتے ہوتے ری پبلکن پارٹی کو تو تقریباً اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی طرح ہی امریکہ میں پرائیویٹ ملیشیا (ہتھیار بند تنظیمیں) میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ پرائیویٹ ہتھیار بند تنظیمیں جہادی اور فرقہ پرستی کا رنگ لئے ہوئے ہیں لیکن امریکہ میں یہ سفید فام نسل پرستی اور ریاست کے اثر کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں۔ اگر پاکستان میں مغرب کی مسلمان دشمنی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو امریکہ میں اقوام متحدہ اور امریکی ریاست کو ایسے ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو امریکیوں کی شخصی آزادیوں کے درپے ہیں۔
امریکہ میں پرائیویٹ ملیشیا کے سابق فو جی ٹمتھی میک وے جیسے ممبران وفاقی حکومت کے خلاف کئی اقدامات کر چکے ہیں جن میں اوکلاہاما ریاست میں وفاقی دفتر کی عمارت کو اڑایا گیا اور اس میں168بے گناہ لوگ مارے گئے۔ پچھلے دنوں سکھ گردوارے اور مساجد پر حملے بھی اسی رجحان کا شاخسانہ ہے۔ سن2003ء میں امریکی فوج نے خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کو بتایا کہ اس کے چھ فوجی انتہا پسند سفید فام تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی (ڈی ایچ ایس) نے 2009ء میں ایک رپورٹ میں کہا کہ نازی اور سفید فاموں کی انتہا پسند تنظیمیں فوج سے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسلامی جہادیوں اور ان انتہا پسندوں میں بہت سی مشترکہ اقدار ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر امریکی فوج میں تین یا چارحاضر ڈیوٹی فوجی پکڑے گئے جو امریکی حکومت کا تختہ الٹنے اور صدر اوباما کو قتل کرنے کی سازش تیار کر رہے تھے۔ ان فوجیوں نے نوّے ہزار ڈالر کی قیمت کا اسلحہ اور بارود بھی جمع کر رکھا تھا اور پکڑے جانے کے خوف میں اپنے ہم پیشہ فوجی اور اس کی گرل فرینڈ کو بھی قتل کر چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انکشاف اسی زمانے میں ہوا جب پاکستانی فوج کے بریگیڈیئر علی خان اور ان کے ساتھیوں کا کورٹ مارشل ہو رہا تھا اور ان کو سزائیں دی جا رہی تھیں۔ اس سارے قصے کے پس منظر میں کیا تھا؟ہو سکتا ہے ہم میں سے اکثر اسے حسن اتفاق ہی سمجھیں لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو دونوں ملکوں میں ہونے والی ان واردات کا آپس میں تعلق بھی ہے۔
پاکستان ہو یا امریکہ اور یا ہندوستان ہو، مذہبی اور نسل پرستی کا آغاز بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے قریب شروع ہوا اور موجودہ دور تک آتے آتے یہ کافی پھل پھول چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد ایسا کیا ہوا جس کے یہ نتائج برآمد ہوئے؟ اس موضوع پر ہزاروں صفحات بھی لکھے جائیں تو کم ہیں لیکن ہم اخباری کالم کی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ اسّی کی دہائی میں ریگن۔تھیچر، انقلاب دشمن معاشی تبدیلیاں ہوئیں جن کے تحت امیر امیر تر ہوتے گئے اور غریب غریب تر، اور یہ رجحان تاحال عالمی سطح پر جاری ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی میں وہ انقلاب آیا جس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔آسان لفظوں میں مشینی پیداوار، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے زمان و مکان کے فاصلوں کو مٹا کر پہلی دفعہ ایک آفاقی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔ اس ٹیکنالوجی کے انقلاب نے بھی ساری دنیا میں امیروں اور غریبوں کا ایک نیا طبقہ پیدا کردیا۔ ان سب کے ردعمل میں بنیادی سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں جنہوں نے دنیا میں ہر سماج کی ترتیب کو متاثر کیا۔
اس بدلتے ہوئے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو سیاسی نتائج سے جوڑنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اس دور میں امریکہ میں عیسائی، ہندوستان میں ہندوتا اور پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی منظر عام پر آئی۔ اسی عرصے میں امریکہ میں پرائیویٹ ملیشیاوٴں کو فروغ ملا، ہندوستان میں خالصتان اور ہندو انتہا پرستوں کی مسلح جتھے بند تنظیمیں معرض وجود میں آئیں، پاکستان میں اسلامی بنیاد پرست اور افغانستان میں مجاہدین پیدا ہوئے۔ روسیوں کے افغانستان پر قبضے کی وجہ سے انتہا پسندی کے مظہرکو اس تناظر میں سمجھنا تھوڑا مشکل ہے لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی بنیادیں ستّر کی دہائی میں رکھی جا چکی تھیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان میں داوٴد حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے حکمت یار کے گروپ کی مالی اور فوجی مدد شروع کردی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں مذہبی انتہا پسندی ، فرقہ پرستی اور مسلح جہاد کو جنرل ضیاء الحق اور سی آئی اے کی سازشی تخلیق قرار دینا، محض جزوی سچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی حالات کی مذکورہ تبدیلی ان کا بنیادی سبب تھی، ضیاء اور ریگن تاریخی طاقتوں کے ہاتھ میں محض کھلونا تھے۔ یہی باہم و مشترکہ حالات ہیں جو امریکی اور پاکستانی فوج میں بغاوت پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی طوفان ہے جس سے پاکستان جیسی کمزور ریاستیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں جبکہ امریکہ جیسی مضبوط ریاستیں کم۔
تازہ ترین