• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزآشنائی…تنویز زمان خان:لندن
گردوارہ دربار صاحب کرتارپور راہداری کے بارے میں کئے جانے والے مختلف سوالات پر بات کرنے سے پہلے سکھوں کے اس مقدس مقام کے بارے میں بات کرلیں جہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18برس گزارے۔ سکھ عقیدے کے مطابق اسی گردوارے کی جگہ پر ہی انہوں نے وفات پائی۔ کہتے ہیں جب گرونانک کی وفات ہوئی تو مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ہمارے رہبر اور ولی ہیں اس لئے ہم انہیں اسلامی طریقے سے دفن کریں گے جبکہ سکھوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے گرو اور سکھ تھے۔ اس لئے وہ ان کی میت کو اپنے پرانے ہندو عقیدے کے مطابق سپرد آتش کریں گے۔ کہتے ہیں اس بحث کے دوران گرونانک کے جسد خاکی کو ایک چارپائی پر ایک چادر میں اوڑھ کے رکھا گیا تھا، طے ہوا کہ باباجی (جوکہ مردہ حالت میں پڑے تھے) سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کس دھرم کے مطابق اپنی آخری رسوم چاہتے ہیں تو جب چادر اٹھائی گئی تو بابا نانک کا جسد خاکی وہاں سے غائب تھا جس کا تاحال علم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ بابا نانک اپنے اعتقاد کے مطابق تمام مذاہب کو ایک ہی منزل کا پتہ کہتے تھے وہ کہتے تھے نہ میں ہندو ہوں نہ مسلمان ہوں۔ مجھے سب پیارے ہیں وہ سب کو سکھ جس کا مطلب سیکھنا ہے وہ اس کا درس دیتے تھے کہ ہمیں زندگی کی سچائی کی جستجو کرنی ہے۔ سکھوں کے لئے شکرگڑھ ناروال میں دریائے راوی کے کنارے واقع یہ گردوارہ بہت مقدس اور اہم ہے جس کی موجودہ عمارت1925ء میں پٹیالہ کے مہاراجہ سردار بھوپندر سنگھ کی طرف سے دیئے گئے چندے سے تعمیر کی گئی تھی۔ 2000ء میں ہندوستان سے گردوارے آنے والوں کے لئے نہ صرف بغیر ویزا آنے کا اعلان کیا تھا بلکہ سرحد لائن سے گردوارے تک آنے کے لئے پل کی تعمیر کا بھی اعلان کیا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح اب کیا گیا ہے لیکن ابھی تک سکھ اپنی اس مقدس زیارت کے درشن انڈیا کے علاقے میں ہی کھڑے ہوکے دور سے ہی کرلیتے ہیں۔ حالیہ پاکستان کی حکومت اور جنرل باجوہ کی جانب سے اعلان کے بعد سکھ برادری میں تو خوشی کی بڑی لہر دوڑ گئی ہے گو کہ انڈیا کے سیاسی تجزیہ نگار ایسے اعلان ہونے اور بعد میں پھر اس باب کو بار بار بند کردینے کے عمل سے یقین میں فقدان پایا جاتا ہے۔ البتہ دونوں طرف کے عام عوام اسے انڈیا ،پاکستان کے اچھے تعلقات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ انڈیا کے وزیرسیاحت ناجوت سنگھ سدھو نے اپنے حالیہ دورے میں کہا کہ مذہب کو سیاست سے الگ رہنا چاہئے۔ اس بات کے پس منظر میں میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ لندن میں جنگ عظیم اول کی ایک سو سالہ تقریب میں تقریر کررہا تھا وہاں اس کرتارپور راہداری کے حوالے سے بات ہوئی تو ایک بزرگ نے بڑی دلچسپ بات کی، کہنے لگے کہ ہم انڈیا کے ساتھ بارڈر کھولنے اور آمدورفت کی بات تو کررہے ہیں اگر سکھوں کا کھلم کھلا پاکستان میں آنا جانا شروع ہوگیا اور انڈیا کا ہمارے ساتھ بہت دوستانہ ہوگیا تو ہم نے جو پاکستان ہندو نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر بنایا تھا اس کا جواز ختم ہوجائے گا۔ اس لئے ہم پاکستان کی خاطر اس نفرت کو ختم نہیں کرسکتے میں ان صاحب کے اس نقطہ نظر پر چونک سا گیا اور مجھے مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ بات یاد آگئی کہ جو ریاست نفرت کی بنیاد پر بنے اگر اس میں سے نفرت نکال دی جائے تو وہ اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے گو کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ یورپ کی مثال آج ہمارے سامنے ہے جہاں مشترکہ تجارت، سیاحت، نرم ترین سرحدیں ہونے کے باوجود تمام ریاستیں اپنا آزاد وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں جسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں البتہ کرتارپور راہداری کے حوالے سے عالمی میڈیا اور بعض حلقوں کی جانب سے جو خدشات اور تحفظات کا ذکر کیا جارہا ہے، جن پر امید کی جانی چاہئے کہ کوئی سچائی نہیں ہوگی یہ کہ پاکستان ،انڈیا اور اپنے درمیان خالصتان کی شکل میں ایک بفرسٹیٹ بنانا چاہتا ہے یا دوسرا یہ کہ پاکستان سکھوں سے تعلقات بڑھا کر انڈیا میں اپنی جاسوسی کا جال پھیلانا چاہتا ہے۔ میں اس اچھی شروعات کو مثبت انداز میں دیکھنا چاہتا ہوں جس سے سکھوں کو اپنے مذہب کی عقیدت اور یاترہ کی تسکین ملے گی جبکہ پاکستان کو ا سے صاف دلی سے چلانے میں بہت بزنس اورشکرگڑھ، نارووال کی ترقی کے مواقع ملیں گے اس کے علاوہ دیگر تمام شہروں میں جہاں جہاں سکھوں کے مقامات مقدسہ ہیں وہاں کئی طرح کی انڈسٹری کو فروغ ملے گا البتہ سب سے اہم جو فائدہ باہم عوامی رابطوں کے فروغ سے ہوگا، اس سے انڈیا اور پاکستان کے مابین دیرینہ تنازعات کے حل کی راہ استوار ہوگی۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اب کشمیر کے بارہ مولہ سمیت مختلف رہداریوں کو نرم کرنے اور کشمیریوں کو دونوں اطراف اپنے عزیز و اقاراب کی جانب آسانی سے آنے جانے کی راہ ہموار کرنے کی جانب کوئی اعلان کرنا چاہئے جس سے پاکستان کی انڈیا کے ساتھ ملحقہ پوری سرحدوں پر تنائو کی کیفیت ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہوجائے گی۔ زیادہ سے زیادہ راہداریاں کھولنے کا اعلان کرنا پرامن سرحدوں کی ضمانت مہیا کر ے گا اور کشمیر، پانی کا مسئلہ اور دیگر تنازعات سمیت بہتر ڈائیلاگ کا ماحول میسر آئے گا۔ پاکستان کو اس سمت پیش قدمی کرنی چاہئے۔
تازہ ترین