• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی بی شہید (محترمہ بے نظیر بھٹو) کے یوم شہادت پر سب سے پہلے شاعرِ شعور اعجاز رضوی مرحوم کا کلام پیش خدمت ہے، نظم کا عنوان ہے:۔

ooo

’’بے نظیر کے جلوس کے ساتھ‘‘

تیز پجیرو رُکے

تو تیری ایک جھلک کے شیریں پل کو،

آنکھوں کی کالک میں گھولیں،

میلے کپڑوں والے بالک

اک دوجے کا ہاتھ پکڑ کے روتے جائیں،

ooo

تیرے سنگ دریدہ دامن،

الجھے بالوں والی مائیں،

اور مناجاتوں میں ساری ساری رات گزارنے والی،

حیرت سے در و دیوار کو تکتی بہنیں،

غربت کے ازار نے جن کے خواب چرائے

رحل پہ گریں بکھرتے جائیں،

اشکوں کی تسبیح کے دانے

کب آئیں گے سمے سہانے!

ooo

ہم جو تیرے شہ سوار ہیں،

کوئی مہارت تامہ جن کے کام نہ آئی،

قسمت کی پتھریلی گھاٹی میں سارا دن

بھاری پتھر توڑتے گزرے،

لیکن جوئے شیر نہ پھوٹے،

حرماں کی زنجیر نہ ٹوٹے!

ooo

آج کے واقعات و معاملات کے پس منظر میں بی بی شہید کے 24؍ اپریل 2003کو پاکستان کے تاریخی، صاحب علم دانشور، لکھاری اور تجزیہ کار جناب ارشاد احمد حقانی کو لکھے ہوئے خط کے چند مندرجہ جات بھی پڑھتے جائیں، آپ کو یہ مندرجات آج کے واقعات و معاملات کا پس منظر آئینہ کی طرح سامنے لے آئیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک گرامی نامہ 24؍ اپریل کو ملا تھا۔ کسی حک و اضافہ کے بغیر ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔ محترمہ کا خط انگریزی میں ہے یہاں اس کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔

ڈیئر ارشاد احمد حقانی صاحب!

میں یہ خط آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ میرے ہاں تشریف لائے اور میرا انٹرویو کیا...آپ کے اس تبصرے سے میری حوصلہ افزائی ہوئی کہ ’’بینظیر بھٹو پر کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوتے تو بہت سے میدان میں ان کی کارکردگی بری نہ تھی‘‘۔ یہ بات درست ہے کہ کرپشن کے یہ الزامات ملک کے جمہوری مستقبل کے لئے میری پارٹی، اس کے نام، میرے امیج اور خود میری ذات کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ اس کے نتیجے میں، میں خود، پاکستان پیپلز پارٹی اور پوری قوم پہلے سے زیادہ یہ احساس رکھتے ہیں کہ جب کبھی کرپشن کے الزامات لگیں تو ان کا بروقت جواب دیا جانا چاہئے۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا ہے کہ ایسے اداراتی انتظام کئے جانے چاہئیں کہ کرپشن کے الزامات کی مناسب تحقیقات کھلے عام ہو سکے۔ اس تحقیقات پر پریس کو پوری معلومات بلا تاخیر فراہم کی جانی چاہئیں اور انکوائری کا غیر جانبدارانہ نظام وضع کیا جانا چاہئے۔ 

بہت سے لوگ آپ کے اس تجزیئے سے اتفاق رکھتے ہیں کہ ’’10؍ اکتوبر کے انتخابات کے بعد جو سپریم کورٹ کی ہدایت کے تحت منعقد ہوئے تھے ہمیں اچھی جمہوریت کے قیام کا ایک اور موقع ملا تھا لیکن میں بڑے دکھ سے کہتا ہوں کہ یہ موقع بھی ضائع ہوتا دکھائی دیتا ہے‘‘۔ میں خود بھی آپ کے تجزیئے سے متفق ہوں۔ صرف چھ ماہ کے مختصر عرصے میں جوں جوں حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات میںانحطاط آ رہا ہے ملک اور قوم آپ کے اس دانائی پر مبنی مشورے سے مستفید ہو رہے ہیں کہ ملک کو ایک دفعہ پھر مارشل لا کے تحت آنے کے خطرات سے محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے۔ آپ نے جب ’’جیو‘‘ ٹی وی پر کہا کہ ایل ایف او کا مسئلہ ایک آتش فشاں ہے اور جب کبھی صدر پارلیمنٹ میں آئے تو ہنگامہ ہو گا تو اس سے آپ کی دور بینی کا ثبوت ملا۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور میدان میں موجود کھلاڑیوں سے اس خیال رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ نئے کھلاڑی لا کر نتائج بدل دینے کا خیال کوتاہ اندیشی ہے۔ اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ پاکستان کے عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہ بات میں بڑے افسوس سے کہہ رہی ہوں۔ پاکستان کے عوام اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں ایک اچھا مستقبل ملے جو ان کے بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر کا آئینہ دار ہو۔ انہیں ایک اچھی جدید ریاست کا شہری ہونے کا موقع ملے اور انہیں 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق حقوق اور جدید خدمات اور سہولتیں دستیاب ہوں۔ اکتوبر کے انتخابات کے موقع پر جب فوجی احکام کے ذریعے مجھے پارلیمانی مقابلے سے باہر کیا گیا تو میری پارٹی کے بہت سے ساتھیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہا لیکن میں نے اس کے خلاف مشورہ دیا کیونکہ میرا خیال ہے کہ ہمارے وفاق کی جمہوری تمنائیں اور ان کی تکمیل کسی بھی ایک فرد سے زیادہ اہم ہیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ جو پارلیمنٹ ایک ایسی حکومت کے فیصلوں کے تحت وجود میں آئی ہے جس کے دو ستون جبر اور انتخابی دھاندلی تھے وہ ابھی تک اپنا مقام حاصل اور فرائض ادا نہیں کر پائی۔ میں امید اور خواہش کرتی ہوں کہ وہ ایسا کر سکے گی۔ صحیح صورت یہ ہےکہ میں صرف لوگوں کے آئینی جمہوری اور انسانی حقوق دیئے جانے کے حق میں آواز بلند کر رہی ہوں۔ میرے خاندان اور میری پارٹی نے، میرے کم سن بچوں نے، میری بیمار والدہ نے، میرے شوہر اور میرے سسرال والوں نے تاریک سالوں اور دنوں اور مہینوں میں جو مصائب برداشت کئے ہیں وہ سب ایک ترقی یافتہ اور خوشال پاکستان کے قیام کے لئے تھے۔ ایسا پاکستان جہاں سیاسی مقاصد کی خاطر انصاف کے تقاضوں کو پامال نہ کیا جائے جہاں ایک کثیر الخیال معاشرہ جو اخوت ہم آہنگی، قوت برداشت اور ہمدردی کے اصولوں پر مبنی ہو، وجود میں لایا جا سکے۔

آپ کی مخلص

بینظیر بھٹو

بے نظیر کہانی واقعی ’’بے نظیر‘‘ ہے، کالم کی گنجائش ختم ہوئی، مقدر میں ہوا تو بی بی شہید کو کبھی ’’کتابی صورت‘‘ میں ان جہتوں سے بیان کریں گے جن کو ابھی تک ضبط تحریر میں نہیں لایا جا سکا۔

تازہ ترین