• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے کہا ہے، خواتین کی تعلیم اور صحت کے لئے ایمرجنسی نافذ کریں گے۔ خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے قرضے دیں گے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کے مخالف ہیں، ایسی ارکان مکمل نمائندہ نہیں۔
”عمران کرے پرواز تے جانے حال دلاں دے“ خان صاحب نے خواتین کے حق میں بیان دے کر اُن کے جیتے ہوئے دل مزید جیت لئے، البتہ یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ مقروض ہو کر خواتین کو قرضے کہاں سے دیں گے، کیونکہ یہاں تو ہر حکومت مقروض ہوتی ہے، اور لوگ مفلوک ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کا خواتین کے لئے مخصوص نشستیں ختم کرنے کا ارادہ نیک ہے، آخر آج تک خواتین کو اقلیت کیوں سمجھا گیا۔ جبکہ وہ اقلیت میں نہیں لگتا ہے کہ خان صاحب کے دور میں خواتین کی جے جے ہو گی، کیونکہ وہ عورت کے اس کرب اور گھٹن سے واقف ہیں، جو اس نے اس آزاد خطہ پاک میں 65 برس تک برداشت کی اور کر رہی ہے، شاید وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پڑھی لکھی اور آزادی وطن کی نعمتوں سے مالا مال عورت ہی اچھے مرد اور خواتین پیدا کرتی ہیں، ہمارے سامنے انتخابات کے کینوس پر تین چہرے نمایاں نظر آتے ہیں، یوں تو یہ تینوں چاند سورج ہیں، لیکن دو آزمودہ ہیں، ایک غیر آزمودہ، فارسی کی کہاوت ہے ”آزمودہ را آزمودن خطا است“ (آزمائے ہوئے کو آزمانا غلط ہے،) اب عوام سے یہی کہا جا سکتا ہے، کہ سب کچھ تمہارے سامنے ہے، جو کرنا ہے کر کے دکھا دو ”اگے ترے بھاگ لچھئے“ ہمارے ملک میں سیاست خواتین کی صحت خاصی حد تک مخدوش ہے ، یوں لگتا ہے کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، اکثر خواتین خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ زچہ بچہ صحت مند نہیں ہوتے، اس ملک سے اب مرد و عورت کے مختلف شعبوں میں شریک کار ہونے میں امتیاز ختم کیا جائے، دونوں ایک ہی گاڑی کے دو پہیئے ہیں، وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ہی نہیں ڈھنگ بھی ہے۔ کیا خواتین مردان اقتدار سے اپنے حقوق کے حوالے سے کہہ سکتی ہیں
بڑے تپاک سے ملتا ہے وہ سبھی سے نسیم
ہمارے واسطے دل میں ملال رکھتا ہے
####
قومی بچت کی اسکیموں پر منافع میں آئندہ مزید کمی کر دی جائیگی۔
یہ حکومت ہے یا پرابلم چائلڈ! ہر روز کوئی نئی شرارت ا ور وہ بھی ایسی کہ تنکا بھی باقی نہ رہے وہ بیچارے پنشنرز جو سارا شباب حکومت کو دے کر بزرگی میں قدم رکھ چکے ہیں اور ان کا گزارہ قومی بچت کے منافع پر ہے وہ اب کیا کریں۔ دنیا بھر میں دستور ہے کہ مہنگائی کے ساتھ پنشن میں اضافہ ہوتا ہے اور یہاں قومی بچت کے ادارے جن میں سب سے زیادہ ڈپازٹ موجود ہوتا ہے، اسے بوڑھے شہریوں کے لئے مزید باعث تنگدستی بنا دیا، وہ معمولی سے منافع کو بھی پھونک پھونک کر زندگی سے سانس کا ناطہ جوڑے ہوئے ہیں اور یہ ظالم حکمران ان کی زندگی کی قبائے تار تار بھی چاک کرنے سے نہیں چوکتے
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لئے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے
یہ حکومت جاتے جاتے بزرگوں کی دعائیں لیتی جاتی، لیکن شاید اس کے نصیب ہی برے ہیں، کہ کانٹے بچھانے سے آغاز کیا کانٹے پھیلانے پر انجام چاہتی ہے، قومی بچت کی سکیموں میں بالخصوص بزرگ پنشنرز کے لئے جو سکیمیں مختص ہیں ان میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، اور یہ جو اربوں کی کرپشن روزانہ کی بنیادوں پر کی جا رہی ہے، اور انتخابات کے لئے قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی ترکیبیں ایجاد کی جا رہی ہیں، انہیں بند کر کے عمر رسیدہ پنشنرز پر رحم کھائیں اور کم از کم ان کے منافع میں اضافہ کیا جائے، وہ حرام خور پنشنرز جنہوں نے کروڑوں کما کر کاروبار شروع کر رکھے ہیں انہیں تو پرواہ نہیں مگر اکثریت ایسے سرکاری پنشنرز کی ہے جنہوں نے زندگی لقمہ حلال پر گزاری، ان کے منہ سے تو لقمہ نہ چھینا جائے،
کشتی تڑپ کے حلقہِ طوفاں میں رہ گئی
دیکھو تو کتنی دور کنارے چلی گئی
####
مشیر پٹرولیم فرماتے ہیں، اوگرا کے اعدادوشمار درست نہیں ساڑھے 18 ارب کی نہیں 7 ارب 60 کروڑ کی گیس چوری ہوئی،
ڈاکٹر عاصم حسین کی عصمت کے کیا کہنے کہ حجمِ گناہ بتاتے ہوئے اعتراف گناہ کر گئے، کیا اب بھی کوئی کسر رہ گئی ہے کہ پُر تعیش زندگی سلاخوں کے پیچھے گزاریں۔ گیس کا کسٹوڈین ہو کر ان سے کوئی 7 ارب 60 کروڑ کی گیس کی چوری کر کے لے گیا اور وہ اوگرا کی گنتی غلط ثابت کرنے میں لگے رہے، آخر اس نقصان کا ذمہ دار کون ٹھہرتا ہے، اس ملک میں عدلیہ زندہ ہے، اور کہہ سکتی ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو اس اعترافِ جرم کے بعد کیا نااہلی کا تمغہ نہیں دے دینا چاہئے ، ظاہر ہے وزیراعظم جو چیف ایگزیکٹو ہیں وہ بھی اس ناقص کارکردگی کا نوٹس لینے سے قاصر ہیں؟تو کیا گنبد اقتدار میں سنہری کرسی والے پہنچے ہوئے بزرگ بھی اس ناکردنی پر حق ہو حق ہو کرتے رہیں گے، یہ ملک کتنی اطراف اور کتنی جہتوں تدبیروں ترکیبوں سے لوٹا جا رہا ہے، اور کوئی ہے جو اس دستِ ستم شعار اور اس کے آلہٴ کاروں کو روکے، کہ بس کرو اب تک تو جہنم بھی بھر جاتی تمہارے شکم کیوں نہیں بھرتے، اور اس پر طرئہ یہ کہ آئندہ انتخابات جیتنے کے بجائے خریدنے کی تیاری ہو رہی ہے، وہ قوم کے خون پسینے کو کیش نہ کرائے۔
مذہب کی کہو تو دل لگی میں اڑ جائے
مطلب کی کہو تو پالیسی میں اڑ جائے
باقی سرِ قوم میں ابھی ہے کچھ ہوش
غالب ہے کہ یہ بھی اسی صدی میں اڑ جائے
مشیر پٹرولیم تو شیرِ پٹرولیم نکلے، ان کی کچھار سے کوئی گیس لے اڑا اور وہ روک نہ سکے ایسی نا اہلی سے تو نااہلی بھی پناہ مانگے گی۔
####
صوفی تبسم اکیڈمی کے زیر اہتمام اسٹیج ڈرامہ، ”اج آکھاں وارث شاہ نوں“ شروع ہو گیا۔
ایک لڑکی، ایک لڑکے کی پیار کہانی وارث شاہ کی زبانی مانی جانی بن گئی، ”ہیریں“ تو کئی شعراء نے لکھیں لیکن وارث شاہ کی ہیر ان کے اپنے مصرع کا مصداق بن گئی
”ہیر گجی نہ رہے ہزار وچوں“
اس ڈرامے کی آرگنائزر ڈاکٹر فوزیہ تبسم کو ہم نے دیکھا نہیں لیکن وارث شاہ کے شاہکار کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کا اہتمام کرنے کے بعد انہیں جان تو لیا، یہ کریڈٹ ڈرامہ نگار صوفی نثار احمد، ہدایتکار آغا شاہد اور لاہور آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو بھی جاتا ہے، کہ ایک ایسے شاعر کو زندہ سے پائندہ کر دیا جنہیں مرورِ زمانہ کے ساتھ پنجابی بولنے والے بھُلاتے اور بالی وڈ کلچر کو یاد کرتے جا رہے ہیں، وارث شاہ ہی پنجاب کا کلچر ہیں، مگر اس کلچر کے وارث # نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پنجابی کی ”منی پرمنی“ شاعری کو صوفیانہ شاعری قرار دے کر اس کی تسبیح پھیری جائے، کیونکہ کوئی صوفی یہ تو نہیں کہے گا
تو و طوبیٰ و مصلیٰ و رہِ زہد و ورع
من و میخانہ و ناقوس ورہِ دیر و کنشت
(ایک طرف اے واعظ تو ہے، تیرا طوبیٰ مصلیٰ اور زہد و تقویٰ کا راستہ ہے، دوسری جانب میں ہوں میکدہ ہے، موسیقی ہے، اور دیر و کنشت جیسے مقامات)
وارث شاہ نے ہیر کا مہابا بیان کرتے ہوئے کہا
”باہنواں ویلنے ویلیاں انگلاں رواں پھلیاں“
اور نہ جانے کس چیز کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا
”سیو بلخ دے چنے انبار وچوں“
فوزیہ جی! پنجاب کے نمائندہ عظیم شاعر وارث شاہ، ان کی لکھی ہیر، اور اس دھرتی کے ڈھول کی تھاپ کو زندہ رکھیں ہم قدم قدم آپ کے ساتھ ہیں۔
####
تازہ ترین