• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ اپنی پوری کوششوں کے باوجود آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو رخساروں تک آنے سے نہیں روک سکا تھا ، نہ مجھ میں کچھ پوچھنے کی ہمت تھی اور نہ ہی اس میں کچھ بیان کرنے کی طاقت۔کافی دیر تک ماحول میں اُداسی چھائی رہی ، اپنے دوست کی پرنم آنکھیں اور چہرے پر صدمے اور تکلیف کے آثار دیکھ کر میرے دل میں کئی خدشات سر ابھار رہے تھے کہ ایسا کیا سانحہ ہوگیا ہے جس نے ایک مضبوط قوت اِرادی کے مالک انسان کو بھی رلا دیا ہے تاہم چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ خود ہی گویا ہوا کہ اب سے پندرہ برس قبل جس ادارے کی بنیاد رکھ کر اس نے اپنی معاشی زندگی کی ابتدا کی تھی وہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے بینک کرپٹ ہوگیا ہے جس کے باعث ادارے میں خدمات انجام دینے والے تمام ملازمین کو بھی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں، اس کی بات سن کر میری کچھ ہمت بندھی تو میں نے اپنے جاپانی دوست کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی ایک پریشان کن خبر ضرور ہے لیکن زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے مسائل اور مشکل حالات کا سامنے کرنے کی ہمت ہی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے اور ویسے بھی جاپان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں کاروباری ادارے دیوالیہ ہورہے ہیں اور لوگ بے روزگار بھی ہورہے ہیں تاہم جاپانی حکومت نے ملک میں سوشل سیکورٹی سسٹم بھی متعارف کرارکھا ہے جہاں بے روزگار شخص رجسٹریشن کے ذریعے تین ماہ سے لیکر چھ ماہ تک بے روزگاری الاؤنس کے ذریعے اپنی تنخواہ کی ستّر فیصد رقم حاصل کرسکتا ہے جبکہ اسی اثناء میں نئی ملازمت تلاش کرکے نئی زندگی شروع کی جاسکتی ہے لیکن میرے دوست کے لئے بات صرف ادارے کے بینک کرپٹ ہونے تک محدود نہیں تھی بلکہ اسے اپنے ادارے سے بے پناہ لگاؤ تھا اور وہ اور اس کے ملازمین دن رات محنت کرکے بھی اس ادارے کو بینک کرپٹ ہونے سے نہیں بچا سکے، میرے اس دوست کا نام تاموری ہرادا تھا جو اپنے اور اپنے جیسے سیکڑوں کاروباری اداروں کی تباہی کا ذمہ دار ملک کی حکومت کو سمجھتا تھا جس کی غلط معاشی پالیسیوں کے باعث جاپانی کرنسی کی قدر میں شدید اضافہ ہوتا جارہا تھا جس کے باعث برآمدات کے کاروبار سے منسلک جاپانی کاروباری اداروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑرہا تھا جس کا نتیجہ بالآخر بینک کرپٹ ہونے اور ہزاروں لوگوں کی بے روزگاری کی صورت میں سامنے آرہا تھا۔ جاپانی حکومت سے نالاں افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا کیونکہ پچاس سال تک جاپان میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت رہی تھی جس نے جاپان کو ترقی کی معراج تک پہنچایا تاہم چار سال قبل جب سابقہ حکمراں جماعت کی ناقص کارکردگی کے باعث جاپان کے عوام کا اعتماد اس جماعت کی حکومت پر ختم ہوچکا تھا تو اسی دوران اس وقت کی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے ملک کی معاشی ترقی کا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ کی درخواست کی جسے جاپانی عوام نے شرف قبولیت بخشا اور پچاس سال بعد جاپان میں اقتدار ایک نئی سیاسی جماعت کو منتقل ہوا تاہم اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور سب سے پہلے پارٹی کو انتخابات میں فتح دلوانے والے پارٹی کے سربراہ ہی سازش کا نشانہ بنے اور ان کو ایک اسکینڈل کے ذریعے وزارت عظمیٰ کا حلف لینے سے روک دیا گیا جس کے بعد حکمراں جماعت عوام کی خدمت کرنے کے بجائے آپس کی سیاست میں الجھ کر رہ گئی اور ملک میں معاشی بحران بڑھتا چلا گیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی جو مکمل منصوبہ بندی کے بغیر غیر حقیقت پسندانہ انتخابی دعوؤں کے نتیجے میں اقتدار میں آگئی تھی، جاپانی عوام کو ان سہولتوں کی فراہمی میں مکمل ناکام نظر آئی جس کے وعدے انتخابات کے دوران اس نے جاپانی عوام سے کئے تھے، یہی وجہ تھی کہ تین سالوں کے دوران حکمراں جماعت کی عوامی مقبولیت مسلسل کم ہوتی گئی اور تین سالوں میں تین وزیر اعظم تبدیل کرکے بھی حکومت کی گرتی ہوئی مقبولیت کو نہیں روک سکی جس کے بعد اپوزیشن جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان جس کو پچاس سال کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع ملا تھا کو ان سالوں کے دوران حکومت گرانے کا بہترین موقع میسر آچکا تھا کیونکہ ملک مسلسل تین سالوں تک معاشی بحران میں مبتلا تھا، جاپانی عوام میں حکومت کی مقبولیت انتہائی کم ہوچکی تھی جبکہ حکمراں جماعت شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہوچکی تھی اور ہر دوسرا لیڈر وزیر اعظم بننے کے لئے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا ، اس موقع پر اپوزیشن جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان نے پارٹی کی کمان سابق وزیر اعظم اور زیرک سیاستدان شنزو أبے کے ہاتھ میں دی جنہوں نے چند ماہ کے اندر ہی حکومت کو نئے انتخابات کرانے پر مجبور کردیا ، دوسری جانب جاپانی میڈیا بھی حکومت پر سخت تنقید میں مصروف تھا کیونکہ گزشتہ تین سالوں میں جاپانی ین کی قدر میں بیس فیصد تک اضافہ ہونے سے جاپان کی بنی ہوئی اشیاء عالمی منڈی میں انتہائی مہنگی ہو چکی تھیں جس کے باعث جاپانی برآمدات میں شدید کمی واقع ہوئی اور کئی جاپانی کاروباری ادارے اپنا کاروبار برقرار رکھنے میں ناکام ہوکر بند ہوگئے، دوسری جانب اسی حکومت کے دور میں جاپان کے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں انتہائی کشیدگی پیدا ہوچکی تھی اور جاپان حکومت شمالی کوریا کی جانب سے اغوا کئے گئے شہری بھی واپس لانے میں ناکام رہی تھی، صرف شمالی کوریا ہی نہیں بلکہ جنوبی کوریا کے ساتھ بھی جاپان کے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب جنوبی کوریا نے جاپان کی حدود میں واقع جزیرے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا اور کئی سو جنوبی کوریا کے شہری متنازع جزیرے پر اتر گئے، ابھی یہ معاملہ بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ جاپان کے چین کے ساتھ بہترین تعلقات پر بھی اس وقت برا اثر پڑا جب چین نے جاپان کے جنوب میں واقع تیل وگیس کی دولت سے مالا مال جزیرے سنکیا آئی لینڈ کو اپنا حصہ قرار دے دیا اور اس حوالے سے جاپان کی تمام تاویلوں کو ماننے سے انکار کردیا ، جاپانی میڈیا کی جانب سے جاپانی حکومت پر لگائی گئی ایک چارج شیٹ کے مطابق جاپانی حکومت نہ صرف معاشی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں ناکام ہوئی بلکہ گزشتہ سال جاپان میں آنے والے سونامی اور زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے بعد بھی حکومت فوری اقدامات کرنے میں ناکام نظر آئی تھی جبکہ فکوشیما میں واقع جاپان کے کئی اہم نیوکلیئر پاور پلانٹ تباہ ہوگئے تھے جس میں حکومتی اداروں کی لاپروائی کھل کر سامنے آئی تھی، جس کے نتیجے میں جاپان کو ایٹمی بجلی کی پیداوار مکمل طور پر بند کرنا پڑی تھی جس کے بعد ملکی ضروریات کی تمام بجلی مہنگے طریقے سے حاصل کی جارہی ہے جس سے عام آدمی پر بھاری معاشی بوجھ پڑا ہے اور صنعتی شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے، ایسی کئی اور ناکامیاں بھی حکومت کے خلاف چارج شیٹ میں شامل تھیں جس سے حکومت پر عوامی اور اپوزیشن کے دباؤ میں اضافہ ہوا اور حکومت مڈٹرم انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی۔ دوسری جانب اس بات کے قوی امکانات موجود تھے کہ موجودہ حکومت انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتی تھی۔
آج جاپان میں عام انتخابات کا دن تھا صبح ہی صبح میرے جاپانی دوست تاموری ہرادا کا فون موصول ہوا، آواز میں ایک بار پھر بھرپور توانائی موجود تھی بڑے پُرجوش انداز میں بتارہا تھا کہ آج الیکشن کا دن ہے اور میں اپنے اور اپنی قوم کے ساتھ گزشتہ تین سالوں میں ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے جارہا ہوں لیکن یہ بدلہ میں کسی کو مار کر یا نقصان پہنچا کر نہیں بلکہ اپنے ووٹ کے ذریعے لوں گاں مجھے امید ہے کہ جاپانی قوم بھی میری طرح گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت کی نااہلی سے سبق حاصل کرچکی ہے اور آج شام کو ملک میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں نظر آئے گی، دن بھر جاپانی چینلز الیکشن کے مناظر دکھاتے رہے حکمراں جماعت کے لیڈرز ایک بار پھر اپنی کامیابی کے دعوے کرتے نظر آرہے تھے اور گزشتہ تین سالوں میں کئے گئے کارنامے میڈیا کے ذریعے عوام کو سناتے نظر آرہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا جاپانی دوست اپنے ووٹ کے ذریعے جاپان میں کوئی بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگا یا نہیں، انہی سوچوں کے ساتھ دن بیت گیا اور شام کو الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوگئے، جاپانی حکمراں جماعت کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اپوزیشن جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی جو پانچ دہائیوں تک جاپان پر حکمرانی کرچکی ہے ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی تھی ، جاپانی وزیر اعظم نے جمہوری روایات کے مطابق اپنی شکست تسلیم کرلی تھی اور اب چھبیس دسمبر کو ملک میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کے نئے وزیر اعظم شنزوأبے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، بلاشبہ جاپانی عوام حکومت کی نااہلی سے آشنا تھے اور ان سب نے مل کر اپنے ووٹ کے ذریعے گزشتہ تین سالوں میں ملک اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بہترین بدلہ لے لیا تھا۔
تازہ ترین