• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نذیر یاد کاشمار میانوالی کے چند اچھے شعرا میں ہوتا ہے۔وہ ریڈیو پاکستان میانوالی کے مقبول ترین میزبان ہیں ۔پی ٹی آئی کے بہت سرگرم کارکن بھی ۔عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے تحریک انصاف کے جتنے ترانے گائے ہیں سب اُنہی کے لکھے ہوئے ہیں ۔پچھلے دنوں میانوالی میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ریڈیوپاکستان سےمیانوالی میں پچھلے تین ماہ سے مجھے کچھ نہیں مل رہا ۔میں مسلسل پروگرام کرتا چلا جارہا ہوں ۔میرے تقریباً نوے ہزار روپے بن گئے ہیں ۔مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے ۔کسی کو کہہ دیجئے ۔ میں نے وعدہ کرلیا ۔لاہور واپس آیا تو پتہ چلا کہ پی ٹی وی کے متعلق میں نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو ایک پریزنٹیشن دینی ہے کہ اس ڈوبتے ہوئے ٹائی ٹینک کو ڈوبنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے ۔جس روز میں نے پریزنٹیشن دی ۔وہیں میری ملاقات فواد چوہدری نےشفقت جلیل سے کرائی ۔

پتہ چلا کہ وزارت اطلاعات میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیں۔ریڈیوپاکستان کے ڈائر یکٹر جنرل کا چارج بھی انہی کو دیا گیا ہے ۔پی آئی ڈی کے پریس انفارمیشن افسرکااضافی چارج بھی انہی کوسونپا گیا تھا۔ ان سے تھوڑی سی گفتگو ہوئی ۔بڑے شگفتہ مزاج لگے ،مجھےپسند آئے ، پھر مجھے نذیر یاد ، یاد آیا ۔ میں نے انہیں نذیر یاد کےمتعلق تفصیل سے بتایااور یہ بھی کہا کہ صرف میں نہیں پورا میانوالی ان کا فین ہے ،حتی کہ وزیر اعظم عمران خان تک ۔انہوں نے کہامجھے میسج کردو میں پیمنٹ کرا دیتا ہوں میں نے اسی وقت اُن سے نمبر لے کر انہیں میسج کردیا۔ کوئی دوہفتے گزر گئے توپھر نذیر یاد نے مجھے فون کیا کہ ابھی تک کچھ نہیں ہوا ۔ میں نے پھر شفقت جلیل کو فون کیا ۔انہوں نے مجھے دوبارہ میسج کرنے کو کہا میں نے ایک بار پھر وہی میسج انہیں فارورڈ کر دیا مگر نذیر یاد کے مایوس کن فون مسلسل آتے رہے ۔ایک ہفتے کے بعد میں عمران خان سے ملاقات کےلئے وزیر اعظم سیکرٹریٹ گیا تو وہاں پھر اُن سے ملاقات ہو گئی ، وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر افتخار درانی کے کمرے میں اُن سے پھر درخواست کی انہوں نے کہا کہ پلیز ایک بار پھر مجھے میسج کر دیجئے ۔ میں نے انہیں ایک بار پھر وہی میسج کیا مگر پھر ہفتہ گزر گیا۔پھر اُن سے ایک شادی میں ملاقات ہوئی ۔جی میں آیا کہ پھر انہیں یاد دلائوں مگر پھر رک گیا کہ یہاں مناسب نہیں ۔نذیر یاد کے فون مسلسل آتے رہے ۔پھر وہ سیکرٹری انفارمیشن بھی بنا دئیے گئے انہیں بائیس گریڈ بھی دے دیا گیا۔جون ایلیا نے انہی کےلئے شاید کہا تھا۔ ایک ہی شخص ہے جہان میں کیا ۔میں نے دو مرتبہ انہیں پھر فون کیا دونوں مرتبہ انہوں نے وہی کہا کہ پلیز ایک بارپھر میسج کردیں ۔آج جب نذیر یاد کا فون آیا تو سوچا کہ آج کالم کی وساطت سے درخواست کروں ۔ ممکن ہے میانوالی آتی ہوئی یہ آواز ان کے نہاں خانہ ِ دل پر دستک دے جائے ۔

یہ کہانی میں نے صرف نذیر یاد کے نوے ہزار روپے کےلئے نہیں سنائی ۔وہ تو میں انہیں اپنی جیب سے بھی دے سکتا ہوں ۔دراصل اس کے پس منظر میں بہت سی باتیں ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے کارکنوں کےلئے کچھ نہیں کررہی پورے ملک کے لوگوں کےلئے کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر حکومت کو یہ سوچنا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کےکام پچھلے دس سالوں سے رکے ہوئے ہیں انہیں ترجیح دی جائے۔بیوروکریٹس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں ۔اُن کے متعلق سوچا جائے اورپالیسی واضح کی جائے ۔گزشتہ دور کے جو پروجیکٹ قابل عمل نہیں انہیں فوری طور پر بند کردیا جائے اور جو قابل عمل ہیں ان پر فوری طور پر کام شروع کرایا جائے ۔اس وقت بیورو کریسی جواب دہی سے خوف زدہ ہے یہ اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ مسلسل مانیٹرنگ کا سلسلہ شروع کیا جائے جو ہر ایک دو مہینوں بعد چیک کرے کہ کام کہاں تک پہنچا ہے ۔ کہیں کرپشن تو نہیں ہورہی ۔اس وقت سیاسی لوگ توبالکل کرپشن نہیں کر رہےمگر بیورو کریسی کے ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں۔یہ اچھی بات بھی ہے کہ میری طرح کسی شخص کی سفارش نہیں مانی جارہی مگر ایک خرابی یہ بھی ہے کہ حقدار کو اُس کا حق بھی نہیں مل رہا ۔

لاہور آرٹس کونسل میں وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نےکرپشن روکنے کی کوشش کی ۔جس پر بیورو کریسی کو سخت تکلیف ہوئی۔اس نے وزیر اطلاعات کو ناکام بنانے کےلئے ہر ممکن کوشش کی اور پھر اپنے حواریوں کی وساطت سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تک پہنچ گئے کہ الحمرا آرٹس کونسل میں جو چار سال تک ہالز کی بکنگ کی گئی تھی اسے کسی طرح برقرار رکھا جائے ۔کیونکہ منسٹر نے وہ بکنگ منسوخ کردی اور اس کا ایک طریقہ کار متعین کردیا جس کے تحت دوماہ سےزیادہ بکنگ نہیں کی جا سکے گی ۔پنجاب آرٹس کونسل میں جو کرپشن جاری ہے اسے ابھی فیاض الحسن چوہان نہیں روک سکے۔فیاض الحسن چوہان شریف آدمی ہیں انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اصل مجرم کون ہیں ۔کون کونسے افسر ارب پتی ہیں ۔انہیں شریف ،ایمان دارافسران کے پیچھے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پورا لاہور گواہ ہے کہ شاعر لاہورشعیب بن عزیز سے زیادہ دیانت دار افسر بیورو کریسی میں کوئی نہیں رہا ۔شروع میں چوہان صاحب اُن کے کچھ قریب بھی ہوئے مگر کرپٹ افسران نےاس قربت کو اپنی موت سمجھا اور اپنی چالیں چلیں ۔شریف آدمی ان چالوں میں آگیا ۔فیض الحسن چوہان پر کیا موقوف یہ بیوروکریٹس عمران خان کو گھول کر پی لینے کی کوشش میں ہیںاور خطرہ ہےکہ کہیں وہ کامیاب نہ ہوجائیں۔پنجاب پولیس کو درست کرنے کا عمران خان کافیصلہ کہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے حالات ماضی سے بھی برے ہو چکے ہیں ۔

فوری طور پر آئی جی پنجاب کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اس محکمے میں پوسٹنگ کےلئے کرپشن کا بازار گرم ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین