• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسی سفاکیت ہے کہ پانچ سال سے 10سال عمر کے ننھے منے بچے جو اسکول میں علم کی شمع روشن کررہے تھے، جو اپنی زندگی کو علم کے پھولوں سے سجارہے تھے ان پر گولیاں برساکر انہیں موت کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ۔ 5سال کے بچے کے چہرے کا تصور کیجئے جیسے کوئی کلی ہو، جیسے کوئی فرشتہ ہو۔ اس کی آنکھوں کا تصور کیجئے، ساری کائنات کی معصومیت ان میں سمٹ آتی ہے۔ اللہ کے نور کی کرنیں اس میں بسی ہوتی ہیں۔ زندگی کا سارا حسن ان ننھی منی آنکھوں میں ہوتا ہے اور یہ ننھی منی معصوم، پرنور آنکھیں بند کردی گئیں۔ منٹوں‘ سیکنڈوں میں ایک شخص آیا اور اس نے اسکول کے ان بچوں پر گولیاں برسا دیں۔ پانچ سے دس سال کے18بچے آناً فاناً موت کی آغوش میں چلے گئے۔
یہ دنیا حیرت کدہ بن گئی ہے۔ اسکول کے ننھے بے قصور بچوں کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں پیش آیا ہے جس کے معاشرے کو مہذب ترین معاشرہ کہا جاتا ہے۔ جہاں تعلیم کا تناسب 100فیصد ہے، جہاں انسانیت کی دہائی سب سے زیادہ دی جاتی ہے اور جو دنیا بھر کے لوگوں کو رواداری کا درس دیتے تھکتا نہیں ہے، حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ میں یہ واقعہ پیش آگیا اور وہ جو سفاک ‘ دہشت گرد ‘ ظالم قاتل تھا اس کو پولیس نے فوراً منظر سے غائب کردیا۔ اس کو ہلاک کرنے کی بجائے زخمی کرکے پکڑا جاتا تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے تھے۔امریکہ کے اسکولوں میں قتل وغارت گری کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ ان واقعات کے بعد ہر بار ایک ہی سا بیان پورے میڈیا کے بینڈ پر سنائی دیتا ہے کہ یہ قاتل کا ذاتی فعل تھا اور قاتل جنونی اور پاگل تھا۔ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ یہ سارے پاگل اسکولوں کے ننھے منے بچوں کو کیوں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور کیا یہ ایک شخص کا ذاتی فعل ہے یا یہ پورے امریکہ کا مجموعی کردار ہے جو ایسے کسی قاتل کے روپ میں سامنا آجاتا ہے۔کنکٹی کٹ کے اسکول میں 18بچوں سمیت 28 انسانوں کے قاتل کو اگر زندہ پکڑلیا جاتا تو پھر یہ پتہ لگایاجاسکتا تھا کہ اسے اس راہ پر کون لایا، اس کے پیچھے کون سا گروہ تھا، اس کو بے رحمی سے گولیاں چلانے کی تربیت کس نے فراہم کی، اس کے دل سے رحم کے جذبے کے ایک ایک ذرے کو کس نے نکال کرپھینک دیا، اس کی آنکھوں میں کس نے ظلم اور اندھا پن بھر دیا کہ ننھے منے معصوم چہروں کو دیکھ کر اس کی انگلیاں نہیں کانپیں۔امریکہ کے اس قاتل کے بارے میں میڈیا پر بہت کم معلومات آئیں۔ اس کا نام ، اس کی عمر اور یہ کہ وہ اپنے بھائی کا شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر لایا تھا اور پھر یہ کہ اس نے نہ صرف اسکول کے استادوں بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی ہلاک کردیا، امریکی میڈیا دنیا بھر کے میڈیا کو یہ خبر دے رہا تھا کہ وہ قاتل صرف ایک قاتل ہے جبکہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں اس سے کم شدت پسندوں کے واقعات میں قاتل کی پوری شناخت اور پس منظر دومنٹ بعد ہی جاری کر دیا جاتا ہے۔اسکولوں کے ننھے منے بچوں کو قتل کرنا‘پوری انسانیت کا قتل ہے اور یہ امریکہ کا مجموعی کردار جو اس طرح سے امریکی معاشرے ہی میں اچانک سامنے آجاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ میں انسانیت کے اس طرح کے قتل کرنے والے عام ہوگئے ہیں اور امریکی معاشرے اور سرزمین کو ان سے بچانے کے لئے امریکہ سے ایسے لوگوں کو مختلف اداروں میں بھرتی کرکے دوسرے ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے اور یہ لوگ ان ملکوں میں ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں کئی اسکولوں میں‘ افغانستان میں اور عراق میں اس طرح کی سفاکانہ کارروائیاں دیکھی ہیں اور ان کارروائیوں میں امریکہ سے آنے والوں کو ملوث پایا ہے۔ ایک امریکی شخص ریمنڈ ڈیوس لاہور کی سڑک پر دن دہاڑے دو نوجوانوں کو گولیاں مارکر ہلاک دیتا ہے اور اطمینان سے اپنی گاڑی میں بیٹھا رہتا ہے پھر امریکی سفارت خانہ حرکت میں آجاتا ہے، صدر اوباما اور ہلیری کلنٹن زور ڈالنا شروع کرتے ہیں اور پاکستانی وکیل کی مدد سے اس کو رہا کروا کر لے جاتے ہیں۔ وہ شخص جس کا نام ریمنڈ ڈیوس تھا امریکی معاشرے کے مجموعی کردار کا ایک سمبل تھا ۔ وہ مجرم تھا کیونکہ اس نے امریکہ جاتے ہی ایک جرم امریکی سرزمین پر کیا جس پر وہ پکڑا گیا اور اب وہ جیل میں ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ یہ تو ہمارا سفارت کار ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ کیا جناب آپ کے سفارت کار اس طرح سفارت کاریاں کرتے ہیں؟امریکہ نے مختلف ملکوں میں فوج کشی اور بلیک واٹر کے ذریعے جیسے جیسے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ان کی تربیت اور تعلیم امریکہ کے کن اداروں میں دی جاتی ہے؟ افغانستان میں ایسا بھی ہوا کہ قابض فوجوں کی بکتر بند گاڑی سے ٹافیاں سڑک پر اچھالی گئیں۔بچے ان ٹافیوں کو لینے کے لئے لپکے تو بکتر بند گاڑیاں ان پر چڑھا دی گئیں۔ امریکہ کے یہ ادارے جو سفاکیت سکھاتے ہیں۔ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے law of attractionبنایاہوا ہے۔ یہ اصول کہتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے گا وہ پلٹ کر اس تک ضرور واپس آئے گا۔ امریکہ کے عوام جہاں تک میرا تجربہ ہے سیدھے سادے عوام ہیں اور یہ لوگ دنیا سے بے خبر لوگ ہیں جو صرف اپنے میڈیا کے ٹرانس میں ہیں۔ ان کو دیکھنا ہوگا کہ ان کے معاشرے میں کانٹے کون بورہا ہے، ان کے معاشرے میں ٹائم بن کون نصب کررہا ہے۔امریکہ دنیا میں کہیں بھی کوئی عمل کرے گا اس کا ردعمل خود انہی کے ہاتھوں ان کے معاشرے میں آئے گا اور کنکٹی کٹ کے اسکول جیسے واقعات تواتر سے ہوتے رہیں گے۔ بار بار ننھے منے بچوں کے چہرے سامنے آتے ہیں۔ دل کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اللہ امریکہ کے اسکولوں کو ان سفاک قاتلوں سے بچائے جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں سفاکیت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔
تازہ ترین