شہریوں کیلئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ امن وامان کے قیام، قانون و انصاف کی بالادستی، روزگار، رہائش اور تعلیم کے علاوہ علاج معالجہ بھی ان بنیادی امور میں شامل ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے اور اس ہدف کا حصول عوام کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے بغیر ممکن نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے، جو قومی مسائل کے حل کیلئے انتہائی لگن کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں، گزشتہ روز راولپنڈی میں ادارۂ امراضِ قلب میں ہارٹ اسٹروک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں علاج معالجے کی سہولتوں کی موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال کی جانب حکومت کو متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ معیاری علاج کی سہولت غریب و نادار سمیت ہر شہری کا آئینی حق ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ کئی سرکاری اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور دوسرے بنیادی آلات تک موجود نہیں جبکہ پنجاب کے بعض اسپتالوں میں ایک بستر پر تین تین مریض لٹائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کے بقول والدہ کی بیماری ان کی زندگی کا نہایت تکلیف دہ واقعہ تھا جس کے دوران انہوں نے دیکھا کہ پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو، اس لئے صحت کے شعبہ میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا کہ ہر غریب کا آسان علاج ہو سکے۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظام صحت میں بہتری لائے۔ ایسے افسران تعینات کئے جائیں جنہیں مسائل کا ادراک ہو۔ چیف جسٹس نے صوبائی سیکریٹری صحت کے منصب پر ڈاکٹروں کے تقرر کی ضرورت کا اظہار بھی اپنے خطاب میں کیا جس پر تمام صوبائی حکومتوں کو لازماً غور کرنا چاہئے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے صحت کے شعبے کیلئے حکومتی فنڈز میں اضافے اور میڈیکل تعلیمی اداروں کی صورتحال بہتر بنائے جانے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل تعلیم آج بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے مگر ہم اتائی زیادہ پیدا کر رہے ہیں، نجی میڈیکل اسپتالوں اور کالجوں کا معاملہ دیکھا تو بتایا گیا پڑھانے والا ہی کوئی نہیں پھر بھی ان اداروں میں ڈاکٹر بنتے ہیں۔ نجی میڈیکل تعلیمی اداروں کا یہ حالِ زار جس قدر لائق تشویش اور پُرخطر ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں لہٰذا ذمہ دار حکام کو جلد از جلد اس سمت میں مطلوبہ اقدامات کرنا ہوں گے اور چیف جسٹس کے مطابق اس حوالے سے قوانین میں جو بہتری لائی گئی ہے، اسے پوری طرح مؤثر بنانا ہو گا۔ چیف جسٹس نے اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ طب کے پیشے کا تعلق براہ راست انسانیت کی خدمت سے ہے، جس کیلئے انسانی ہمدردی کا جذبہ ضروری ہے لہٰذا میڈیکل تعلیمی اداروں میں طلبہ میں یہ شعور بھی بیدار کیا جانا چاہئے کہ ان کا مقصدِ زندگی محض پیسہ کمانا نہیں بلکہ انسانی خدمت کے ذریعے رب کی رضا اور اجر ِ آخرت کا حصول بھی ہونا چاہیے۔ ادویہ کی قیمتوں کا عام آدمی کی دسترس میں رکھا جانا بھی علاج معالجے کو اس کیلئے ممکن بنانے کی ایک لازمی شرط ہے۔ اس ضمن میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں ساڑھے آٹھ سو دواؤں کی قیمتوں میں پانچ سے 70فیصد فوری اضافے کیلئے جمع کرائی جانے والی سفارش کی خبر مہنگائی کے بوجھ تلے پستے عوام کیلئے فی الحقیقت روح فرسا ہے۔ پاکستان فارما سوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں پچھلے ڈیڑھ عشرے سے دواؤں کی قیمتیں منجمد ہیں جس کے باعث آٹھ سو دوا ساز کمپنیوں میں سے تین سو بند ہو چکی ہیں جبکہ ڈالر کی مہنگائی نے مشکلات مزید بڑھا دی ہیں لہٰذا قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہ دی گئی تو ملک میں دوا سازی کی صنعت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ دوا سازی کی صنعت کے یہ حالات بھی یقیناً لائقِ توجہ ہیں لیکن ادویات کو عوام کی قوتِ خرید کی حد میں رکھنا بھی لازم ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے حکمران جماعت تحریک انصاف کے پروگرام میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں چنانچہ درپیش صورتحال میں عوام کیلئے طبی سہولتوں کو بہتر بنانے کی خاطر اسے جلد از جلد ان اقدامات کو عمل میں لانا چاہئے جن کا وعدہ اس کے انتخابی منشور میں کیا گیا تھا۔