• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں پولیو کے کیسز 20ہزار سے کم ہو کر 4ہزار ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، تاہم جیو کے پروگرام جرگہ میں ماہرین کا یہ کہنا باعثِ تشویش ہے کہ اس وقت بھی بلوچستان، کراچی، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں پولیو کے سب سے زیادہ کیس پائے جاتے ہیں جبکہ باجوڑ سے اسلام آباد تک اس مرض کے جراثیم پھیلنے کا مرکز پشاور ہے۔ ماہرین کے مطابق پولیو وائرس گندے ہاتھوں سے کھانے پینے کی وجہ سے منہ کے راستے آنتوں میں جاتا اور وہاں پرورش پاتا ہے، اس کے پھیلنے سے انسانی جسم کی ایک نس بھی خراب ہو جائے تو متعلقہ عضو مفلوج ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بالعموم اور افغانستان میں بالخصوص اس کا مکمل خاتمہ بدستور چیلنج بنا ہوا ہے۔ ہمیں اس بات پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے اور جب تک پولیو کا ایک کیس بھی ملک میں موجود ہے ہمیں چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے پاکستان میں مقیم عہدیداروں نے چند ماہ قبل پاکستان اور افغانستان میں پولیو مہم بیک وقت چلائے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا جو ایک مفید تجویز ہے کیونکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے لوگوں کے آپس میں دیرینہ مراسم اور رشتہ داریاں ہیں جبکہ افغانستان کے حالات خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی ابتر ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں لوگوں کے دلوں میں پولیو سے بچاؤ کی دوا کے بارے میں بعض شکوک و شبہات اور خدشات پائے جاتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان علاقوں میں معتبر طبی ماہرین، علماء، اساتذہ اور دیگر سرکردہ شخصیات کے توسط سے لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ ان قطروں سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں بلکہ یہ اقدام معذوری سے حفاظت کیلئے ہے جبکہ پورے کنبے میں ایک فرد کا بھی معذور ہونا گھر کے ہر فرد کیلئے تکلیف دہ ہوتا ہے لہٰذا دونوں برادر ملکوں میں لوگوں کا پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں سے مکمل تعاون کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین