• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ اور موجودہ حکومت نے مالی خسارہ کم کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 44فیصد سے زائد کمی کی جس کے نتیجے میں گزشتہ دور حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 98کی سطح سے کم ہوکر 121.50روپے اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100دنوں میں روپے کی قدر 121.50کی سطح سے بھی کم ہوکر 142روپے تک آگئی۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں روپے کی قدر میں مجموعی 44روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔ میں ذاتی طور پر روپے کی ایک دم ڈی ویلیو ایشن کے خلاف ہوں لیکن روپے کی حقیقی قدر کا حامی ہوں کیونکہ ماضی میں ایک دم ڈی ویلیو ایشن کے اچھے اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ حکومت نے جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں منتقل کردیا اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اگر روپے کی قدر مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کے حساب سے رکھی جائے اور اسٹیٹ بینک مداخلت نہ کرے تو یہ ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے حکومت کو ڈی ویلیوایشن کے بجائے ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس میں بجلی اور گیس کے مقابلاتی ریٹس اور ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز سرفہرست آتے ہیں۔ ڈی ویلیو ایشن سے نہ صرف بیرونی قرضے مزید بڑھ جاتے ہیں بلکہ اس بار بھی ڈالر کی قدر میں ایک دم اضافے سے ہمارے بیرونی قرضے راتوں رات 750ارب روپے بڑھ گئے۔ یہ اضافی قرضے نہ لئے گئے اور نہ استعمال کئے گئے بلکہ صرف روپے کی قدر میں ڈی ویلیو ایشن سے اضافی بوجھ بنے۔ اس کے علاوہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے امپورٹ کی گئیں پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ بہتر یہ ہوتا کہ روپے کی قدر کے تعین کو مارکیٹ قوتوں پر چھوڑ دیا جاتا جو ہماری ایکسپورٹ میں بھی مددگار ثابت ہوتا۔ گزشتہ مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 34ارب ڈالر رہا جبکہ ہمارے بیرونی قرضے بڑھ کر 96ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔روپے کی قدر پر میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ آنے والے وقت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جون 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد دو سال تک روپے کو مصنوعی طور پر 98.25روپے کی سطح پر رکھا تھا، اس عرصے جب بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھتی تو اسٹیٹ بینک کی دخل اندازی سے مطلوبہ ڈالرز مارکیٹ میں سپلائی کرکے ڈالر کی طلب اور رسد برقرار رکھی جاتی تھی تاہم تیسرے سال جون 2015ء میں روپے کی قدر کم ہوکر 101.80روپے تک آگئی اور جون 2017ء تک ڈالر 104.80روپے پر ٹریڈ ہوتا رہا، اس طرح سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں روپے کی قدر کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے روپے کی قدرکو مصنوعی طور پر 98سے 104کی سطح پر رکھا جو آئی ایم ایف کے مطابق اس کی حقیقی قدر سے 10سے 15فیصد زیادہ تھی جس کا میں نے اپنے کالموں میں متعدد بار ذکر بھی کیا تھا۔ دسمبر 2017ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے جانے کے بعد جب رانا افضل وزیر مملکت اور ڈاکٹر مفتاح اسماعیل مشیر برائے خزانہ بنائے گئے تو ڈالر 4.7فیصد کمی سے 112روپے کی سطح پر پہنچ گیا جس کی وجہ سے دیگر بیرونی کرنسیوں یورو اور پونڈ کی قدریں بھی بڑھ گئیں۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی پالیسی تھی کہ ڈالر کو اس کی اصل قدر پر لایا جائے جس کیلئے وہ روپے کی قدرمیں مزید کمی کرنے کے حامی تھے اور اس وجہ سے 29جون 2018کو ڈالر انٹربینک میں 121.5روپے اور اوپن مارکیٹ میں 124.5روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 23.50روپے کی مجموعی کمی ہوئی جس میں صرف گزشتہ 6مہینوں میں 18روپے کی کمی ہوئی اور دسمبر 2017ء سے جون 2018ء تک اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں 3مرتبہ کمی کی جبکہ روپے کی قدر پر متضاد حکومتی پالیسیوں کے باعث پانچ سالوں میں ملکی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوئی۔پی ٹی آئی حکومت کے سو دنوں کے دوران مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر 142روپے کی ریکارڈ بلند ترین سطح چھو کر 139پر پہنچ گیا، اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ 10فیصد تک پہنچ گئے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں میں 1300ارب روپے سے زائد اضافہ ہوا، ضمنی بجٹ میں اضافی ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی جس سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور افراط زر 3فیصد سے بڑھ کر 7فیصد ہو گیا جس میں مزید اضافہ متوقع ہے، ایکسپورٹرز کے 200ارب روپے سے زائد سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز کی متعدد وعدوں کے باوجود ادائیگی نہیں کی جاسکی۔

وزیر خزانہ اسد عمر اور پاکستان میں آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ ہیرلڈ فنگر میں آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج پر مذاکرات جاری ہیں جس میں آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں جن میں روپے کی قدر میں مزید کمی کرکے اسے ڈالر کے مقابلے میں 145روپے تک لانا، بجلی اور گیس کے نرخوں میں 20فیصد اضافہ، مالی اور مالیاتی اصلاحات، سبسڈی کا خاتمہ، جی ڈی پی میں ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے صدر غضنفر بلور نے ملکی معیشت پر ایک دم ڈی ویلیو ایشن کے منفی اثرات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، نئی صنعتوں کی مالی لاگت بڑھ جائے گی اور بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں پر انٹرسٹ ریٹ بڑھنے سے نجی شعبے کے قرضوں میں کمی آئے گی جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔ میری رائےبھی یہ ہے کہ روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی سے افراط زر اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگا اور اس طرح حکومت کو مالی خسارے میں کمی اور ایکسپورٹ میں اضافے کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ انہی حالات کے پیش نظر فیڈریشن کے ایک اعلیٰ سطح وفد جس میں، میں بھی شامل تھا، نے وزیراعظم عمران خان سے کراچی میں گورنر ہائوس میں اتوار کو ایک ملاقات کی جس کی تفصیل اپنے آئندہ کالم میں تحریر کروں گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین