• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجارتی جنگ بندی کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کی شی جنگ پنگ کو ٹیرف ملتوی کرنے کی پیشکش

بیونس آئرس : جیمز پولی

دونوں ممالک کی مالیاتی مارکیٹوں کو خوفزدہ کرنے اور نقصان پہنچانے والی تجارتی جنگ کو روکنے کیلئے چین کے صدر شی چنگ پنگ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ برس چینی درآمدات پر ٹیرف کی بلند شرح نافذ کو ملتوی کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔

ہفتہ کو جی 20 عالمی سربراہی کانفرنس کے اختتام کے بعد ارجنٹائن میں دو صدور اور ان کے مشیران اعلیٰ کے ایک ساتھ عشائیے کے بعد عارضی جنگ بندی طے پائی۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان کردہ معاہدہ کی شرائط کے مطابق امریکا دو سو ارب ڈالر سے زائد کے چینی سامان پر دس فیصد سے 25 فیصد سے زائد ٹیرف کا اضافہ نہیں کرے گا جیسا کہ پہلے اس نے منصوبہ بنایا تھا۔

دریں اثناء ، امریکا کے ساتھ تجارتی خلاء کو کم کرنے کے لئے چین فارم، توانائی اور صنعتی سامان کی خریداری کیلئے کافی بھاری رقم منتقل کرے گا، اگرچہ رقم کا تعین نہیں کیا گیا۔ امریکا نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک اپنے اقتصادی تعلقات میں دانشورانہ جائیداد کی چوری اور ٹیکنا لوجی کی زبردستی منتقلی جیسے چند خاردار مسائل کے حل کے لئے مذاکرات شروع کریں گے۔ٹیرف کے نئے اضافے میں ناکامی کے نتیجے کے ساتھ انہوں نے مذاکرات کے لئے تین ماہ کی مدت مقرر کی ۔

چین کے ریاستی گلوبل ٹائمز نے چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کا حوالہ دیا کہ جیسا کہ وہ جی 20 سربراہی کانفرنس کی پریس کانفرنس میں بیان کررہے تھے کہ اصلاحات کے عمل اور مذاکرات شروع کرنے کے حصہ کے طور پر امریکا کے جائز خدشات کے اطمینان کے لئے اپنی مارکیٹ کو آزاد کرنے کیلئے راضی اور چین اپنی ضروریات کی بنیاد پر درآمدات بڑھانے کے لئے تیار ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جنگ پنگ پارک حیات ہوٹل میں اہم سربراہی اجلاس میں داخل ہوئے،جہاں بنیادی طور پر امریکی صدر کا لہجہ حوصلہ افزاء تھا، جس سے معلوم ہورہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی میں جنگ بندی ایک ڈرامائی فاصلہ پر ہے۔ بعد ازاں وہ ایئر فورس ون پر واشنگٹن کی جانب واپسی کیلئے پرواز کرگئے، ڈونلڈ ترمپ نے مثبت بیانات جاری کئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور چین دونوں کے لئے یہ لامحدود امکانات کے ساتھ ایک حیرت انگیز اور بارآور ملاقات تھی۔

عشائیہ میں شی جنگ پنگ کے افتتاحی کلمات میں انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سے کام ہوئے ہیں صرف ہمارے درمیان تعاون کے ساتھ ہم امن اور خوشحالی دونوں کے مفاد میں خدمات ادا کرسکتے ہیں۔

قائمہ الزاویہ شکل کی میز کے گرد وفد بیٹھا تھا، میز کے اوپر کرسٹل سے بنا ہوا شینگلر جھول رہا تھا اور میز کے درمیان میں پھولوں کی قطار تھی۔ کھانے میں اہم ڈشیں بھنا ہوا گائے کی پٹھ کا گوشت ، ساتھ میں سرخ کی گئی پیاز، بکری کے دودھ سے بنا نرم اطالوی پنیر اور کھجوریں تھیں ساتھ میں میلبک کی سرخ وائن تھی۔

معاہدے نے تجارتی تنازع کو روک دیا جو پہلے ہی امریکا اور چین دونوں ممالک کی معیشتوں کیلئے سنگین نقصانات کی علامات ظاہر کررہا تھا، عالمی ترقی کے مستقبل کو ضرب اور مالیاتی مارکیٹوں میں خرابی اور عدم استحکام کا سبب بن رہا تھا۔

وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کیلئے ایوان نمائندگان کی ہار اور 2016 کی صدارتی انتخابی مہم میں خصوصی پراسیکیوٹر رابرٹ میولر کی تحقیقات میں نئی سرگرامی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ملک میں مشکلات کا سامنے کے ساتھ عشائیے میں شرکت کی۔تاہم ان تما دباؤ کے باوجود،اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ جنگ بندی زیادہ عرصہ برقرار رہ پائے گی، لہٰذا جب تک کوئی ٹھوس قرارداد موجود نہیں تو واشنگٹن اور بیجنگ پر ٹیرف میں نئے اضافے کا امکان منڈلارہا ہے۔

مرکز برائے نئی امریکی سلامتی میں چینی امور کی ماہر ابیگیل گریس نے کہا کہ معاہدہ دونوں ممالک کے لئے وقفہ ہے۔ دو بیوروکریسیز کے درمیان پس پردہ ہونے والی سخت بات چیت کے ساتھ آئندہ تین ماہ کے لئے عوامی غور و فکر کی توقع ہے۔انہوں نے کہا کہ تجارتی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

ڈونلڈ ترمپ نے ان کی جلد بازی اور موجودہ سیاسی ترجیحات پر منحصر تجارت پر دھمکانے اور سمجھوتے کے مابین منتقل کردیا ہے۔ دو ماہ کے عرصے کے دوران انہوں نے جاپان اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے معاہدہ طے کرلیا اور میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ شمالی امریکی تجارتی معاہدے کے اختلافات دور کرکے نیا معاہدہ کرلیا۔

چین کو ہمیشہ مشکل چیلینج سمجھا گیا ہے، تجارت پر بیجنگ کا مقابلہ کرنا 2016 میں ان کی کامیاب صدارتی مہم کا مرکزی حصہ تھا اور ان کے عہدے کا کل وقت موضوع بن گیا۔ ان کے ابتدائی چند ماہ کے دوران وائٹ ہاؤس میں چینی صدر شی جنگ پنگ کے ساتھ بات چیت کرنے کی ان کی کوششوں کے ضائع بعد اس سال خاص طور پر سچ ہے ۔

جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف تیزی سے سخت مؤقف اپنایا، ٹیرف میں اضافہ اور مزید ٹیرف کی دھمکیاں، ان کی اپنی انتظامیہ کے اندر موجود جارحیت پسندوں بالخصوص وائٹ ہاس کے تجارتی مشیر پیٹر نیرورو اور بااثر امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لئتھرائزر کی جانب سے حوصلہ افزائی کی گئی۔

تاہم اندورنی تقسیم کا دوسرا رخ وزیر خزانہ اسٹیون منچن اور قومی اقتصادی کونسل کے ڈائریکٹر لیری کدولو معاہدے پر غور کے لئے تیار رہے ہیں۔بیونس ایئرز میں چینی حکام کے ساتھ مذاکرات کی میز پر یہ تمام موجود تھے۔ سمجھوتے کیلئے بلیک اسٹون کے چیف ایگزیکٹو اسٹیو شوارزمین سمیت وال اسٹریٹ کی معروف شخصیات نے پس پردہ رہ کر کام کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے نکتہ نظر کی نشاندہی کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے، آخر تک دونوں جانب کے حکام اندازہ لگاتے رہتے ہیں۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جنگ پنگ کے ساتھ مضبوط تعلقات کا دعویٰ کیا تھا،جس کا رجائیت پسند اکثر ایک ایسے عنصر کے طور پر حوالہ دیتے رہے کہ شاید کسی کامیاب پیشرفت کا باعث ہو سکے۔

اکتوبر میں ایکویٹی مارکیٹ( اسٹاک کے خریداروں اور بیچنے والے والوں کے اجلاس کا مقام) میں تیزی سے کمی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جنگ پنگ کو فون کال میں سلسلہ جنبانی شروع کیا جو طویل وقفہ کے بعد بات چیت کا دوبارہ آغاز تھا۔انہوں نے پھر اپنے عملے کو ہدایات دیں کہ دیکھیں اگر بیونس ایئرز میں جی 20 سربراہی اجلاس میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات ہوں یا کم از کم بیجنگ کے ساتھ کشیدگی کی چند وجوہات کو حل کرنے کے لئے کوئی فریم ورک بن سکے۔

تاہم گزشتہ ہفتے تک چینی حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو چند بامعنی رعایتوں کی پیشکش کی تھی،جس نے وائٹ ہاؤس کی معاہدے کی توقعات کو کم کرنے اور مستقبل قریب میں نئے ٹیکسز کی دھمکیوں کو متحرک کردیا۔ جب وہ ارجنٹائن میں جہاز سے اترتے ہوئے امریکا کی جانب سے لہجہ زیادہ مثبت ہوگیا، ڈونلڈ ترمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ مذاکرات میں اچھی علامات دیکھ رہے ہیں۔

شی جنگ پنگ کی جانب سے افیون سے مشابہہ سکون آور فینٹینائل کو ممنوعہ مادہ قرار دینا، جس کا مطلب امریکا کو اس کی فروخت کرنے والوں کو سخت سزائیں، اور چپ بنانے والے کوالکوم اور این ایکس پی کے انضمام کی منظوری کے لئے آزاد ہونے،جسے چین بلاک کررہا تھا، سمیت معاہدے کے دیگر پہلو ہیں۔

اگر مذاکرات کے اگلے دور میں مزید ٹھوس نتائج سامنے نہیں آتے تو انتظامیہ میں موجود انتہا پسندوں کی بے صبری بڑھنے کے امکانات ہیں، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے سب سے زیادہ دشمن چند حامیوں کی جانب سے جنگ بندی کیلئے شدید ردعمل کی کچھ علامات وہاں پہلے سے موجود تھیں۔

صدارتی تبدیلی کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا تجارتییونٹ چلانے والے اسٹیل کے ایگزیکٹو ڈین ڈی میکو نے لکھا کہ کیا ہیش ٹیگ بڑی غلطی کررہا ہے؟ تفصیلات میں ایک پریشانی ہے! لیکن میں جھوٹ بولوں گا اگر میں نے پہلی نظر میں نہیں کہا کہ یہ تو بہت مایوس کن ہے۔انہوں نے کہا کہ میں متفق نہیں ہوں لیکن میں صدر کو تسلیم کرتا ہوں۔ تاہم بزنس گروپس کو سکون ملنے کے امکانات ہیں کہ ابھی کیلئے کم از کم ٹیرف میں مزید اضافے سے بچ گئے۔ 

تازہ ترین