• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈالرز کی اُڑان، روپے کی بے قدری، آئی ایم ایف کی شرائط

مَیں آنکھیں اس لیے بند کرتا ہوں تاکہ دیکھ سکوں، لیکن نوشتہ ٔ دیوار پر یہی نمایاں نظر آتا ہے کہ جو قوم مینوفیکچر نہیں، صرف کنزیومر ازم، کریڈٹ کارڈز، لیزنگ اور قرضوں پر اکتفا کرتی ہے، اس کی جمہوریت، بسترِمرگ پر لیٹی صرف ملک الموت کا انتظار کرتی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، اگر چھوٹے کاشت کاروں کو بھی زرِتلافی اوروہی دیگر سہولتیں فراہم کردی جائیں، جو سرمایہ دار اور بڑے زمین داروں کو حاصل ہیں، تو تین فصلیں غیرمعمولی پیداوار دے سکتی ہیں۔ گنّے کے کاشت کاروں کے ساتھ کھلواڑ نہ ہو، چینی کے کارخانے دار سیاسی بالادستی کے زور پر مَن مانی نہ کریں، تو نہ صرف گنّے کی کرشنگ اور ادائیگی وقت پر ہوسکتی ہے، بلکہ شکر یقیناً برآمد بھی ہوسکتی ہے۔ ملک میں بصیرت افروز قیادت ہو، تو پاکستان ’’فوڈ پاور‘‘ بن سکتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ڈیری اشیاء مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کو برآمد کرتے ہیں، جس کے باعث اُن کی فوڈ انڈسٹری کاشت کاروں سے زیادہ منافع بخش ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے زرعی ملک میں ضروریاتِ زندگی سے لے کر تعیشات تک، ہر شئے بیرونی ممالک سے نہ صرف درآمد کی جاتی ہے، بلکہ اسمبل اور اسمگل بھی ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں روپے کی بے قدری تو ہوتی رہے گی۔ اور پھر ایسے حالات میں جب پاکستان کی برآمدات 24ارب ڈالر، بنگلا دیش کی 38ارب ڈالر، ویت نام کی 214ارب ڈالر اور سنگا پور کی300 سے 500ارب ڈالر ہیں، تو پھر پاکستان میں معاشی استحکام کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم 70برس سے قرضوں پر گزارہ کر رہے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ عوام کو ہنر مند ہی نہیں بنایا گیا، تو غریب کیا کرے، دوسری طرف قوم پرستوں نے اپنے بچّوں کو تو پڑھایا، لیکن قبائلی نظام برقرار رکھ کر رعایا کو جاہل رہنے پر مجبور کیا اور خود حکومت سے رائلٹی لیتے رہے، جب کہ بائیں بازو والے انہیں انقلابی سمجھتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل اور بائیں بازو والے محض باتوں اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ حالاں کہ قیامِ پاکستان کے محض تین برس بعدیعنی 1951ء میں کوریا کی جنگ کے دوران، پاکستان نے تاریخ میں اب تک اپنے دور کے لحاظ سے سب سے زیادہ برآمدات کیں، لیکن اس کے بعد ڈالرز کی عاشقی میں ہم نےرسوائی مول لے لی اورسامراج نے حصولِ قرض کی روایت قائم کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سامراجی قوتوں اور اُن کے حواری حکمرانوں نے آسانیاں تلاش کرکے خاص طور پر جنرل ایوب خان کے زمانے میں سیٹو، سینٹو اور بغداد پیکٹ میں شامل ہو کر امریکی منشا کے مطابق صنعت کاری شروع کی،جس کے بعد امریکیوں نے قرضوں کی ایسی لَت لگائی کہ ہم نے اپنی سرزمین پر اُنہیں اڈے قائم کرنے تک کی اجازت دے دی۔ دوسری طرف سامراجیوں نے سابق سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو محاذ بنادیا۔ ابتدا میں 5روپے فی ڈالر پر کیپ لگانے کی اجازت دی گئی۔ ملک جب دولخت ہوا، تو روپے کی بے قدری شروع ہوگئی۔ مشرف دور میں اُس وقت کے وزیر خزانہ، شوکت عزیز نے ڈالر کو 60روپے تک کیپ رکھا، بعدازاں، اسحاق ڈار نے 102روپے فی ڈالر کیپ رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف نے اس کی اجازت کیوں دی؟ اگرچہ آئی ایم ایف نے غلط اعداد و شمار پیش کرنے پر دونوں سابق وزرائے خزانہ پر جرمانہ بھی عائد کیا، لیکن امریکا کے حواری ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کے لیے آئی ایم ایف نے نرم گوشہ اختیار کرلیا۔ اب جب کہ ’’سی پیک‘‘ عالمی اجارہ داروں کے مفاد میں نہیں رہا، تو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان پریشان حال ہیں، کیوں کہ امریکی حکومت جن صنعتوں کو عالمی فرائض سونپنا چاہتی ہے، ان کی باقاعدہ معاونت بھی کرتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آزاد تجارت کی علَم بردار، عالمی تجارتی تنظیم نے 2009ء میں ’’دوہا کانفرنس‘‘ میں کہا تھا کہ امریکا یورپ اور جاپان اپنے کسانوں کو 370ارب ڈالر کی جو زرِتلافی فراہم کرتے ہیں، اسے 2013ء تک ختم کردیا جائے، لیکن ان ممالک نے مذکورہ فرمان یک سر سُنا، اَن سُنا کردیا، جب کہ اس کے برعکس پاکستان، آئی ایم ایف کی ہدایت پر زرِ تلافی بتدریج ختم کرتا چلا جارہا ہے۔واضح رہے کہ یورپ نے سماجی تحفّظ (سوشل سیکیوریٹی) اور فلاحی مملکت کا نظام پبلک سیکٹر (ملی جلی معیشت) کی طاقت سے حاصل کیا ہے اور آج سرمایہ دارانہ نظام قرضوں اور آزاد تجارت کے نرغے میں آکر اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اُس کے ماہرینِ معیشت مشورہ دے رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسی نرم کرنے کے لیے سوشل ازم کی شرکت ضروری ہے، جو یقیناً سیچویشنل سوشل ازم ہی ہوسکتا ہے۔

اس وقت دنیا میں جو نظام چل رہا ہے، ہمارے ماہرین اس کے اثرات کے جائزے پر کوئی توجّہ نہیں دے رہے۔ پاکستان کو ماضی کے تمام حکمرانوں نے جس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، وہ برزخ بھی نہیں ہے، اس لیے کہ ڈالرز کے عشق نے شروع دن ہی سے ہمیں رسوا کر رکھا ہے، کیوں کہ ہم فوڈ پاور بننا چاہتے ہیں، نہ جنگل اُگانا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو معدنیات کی دولت کا علم ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل میں کتنا خود کفیل ہے اور زراعت سے کس قدر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کا نصاب پڑھنے والے ہمارے وزرائے خزانہ جی ڈی پی، شرح نمو ہی سے آگے نہیں نکل پاتے۔ سو، روشنی بھی سایۂ ظلمات سے آگے نہیں بڑھ پاتی، جس کا نتیجہ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت آتا ہے۔ صرف ایک راستہ آئی ایم ایف کا چُن کر قوم کو قرضوں کے نشے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ کرپشن اس قدر بڑھی کہ بچّے بچّے کو علم ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے، لہٰذا آج پھر عوام کو کچلنے کے لیے آئی ایم ایف کے ایڈجسٹمنٹ پروگرام کی طرف جانے کی ٹھان لی گئی ہے، کیوں کہ بدقسمتی سے ریاست اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہے۔ جبری کفایت شعاری، اشیائے صرف کے دام بڑھانا، روپے کی قدر کم کرنا، یقیناً آئی ایم ایف ہی کا نسخہ ہے۔ ہم جنہیں دوست ممالک سمجھتے ہیں، سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں۔ چین کو بہترین راہ داری اور دو بندر گاہیں مل گئی ہیں، ایک کراچی میں ایک گوادر پورٹ۔

واضح رہے کہ پاکستان پر 60ارب ڈالر کے چینی قرضے ہیں، جنہیں سرمایہ کاری بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ڈالر بھی اسٹیٹ بینک نہیں آیا۔ خام مال اور تیار شدہ مال بھی چین سے خریدو، خریداری میں منافع بھی اُن کا ہو، اور پھر درآمد کرو، تو توازنِ ادائیگی میں 13ارب ڈالر کا خسارہ بھی برداشت کرو۔ اسمگل شدہ ارزاں اشیاء بھی پاکستان کی کئی صنعتوں کی تباہی کا باعث ہیں۔ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں، تو کوئی اس کا دوست بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ سب سے بڑی گراوٹ اُس وقت آئی، جب حکومت نے ایٹمی دھماکے کیے اور ہمارے ریزرو میں صرف 400ملین ڈالرز (40کروڑ ڈالرز) رہ گئے۔ اُس دَور میں روپے کی قدر میں 43روپے کی کمی سے ڈالریک دم 67روپے پر آگیا، بعدازاں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دَور میں جب آئی ایم ایف کے سدھائے ہوئے شوکت عزیز پہلے وزیرِ خزانہ اور پھربعد میں وزیراعظم بنے، تو آئی ایم ایف نے انہیں اگلی حکومت کے گھٹنے ٹیکنے کے لیے اجازت دی کہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں 60 روپے پر کیپ کر دیں۔ان کے بعد آنے والے اسحاق ڈار نے بھی یہی کیا اوراب وزیراعظم ،عمران خان، ڈالرز کی تلاش میں ملکوں ملکوں مارے مارے پھر رہے ہیں اور اپوزیشن تماشا دیکھ رہی ہے۔ موجودہ حکومت میں 90فی صد اپوزیشن ہی کے سیاست دان اور مشیر ان کے ساتھ ہیں، جو انہیں ڈبونے کے درپے ہیں اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں، حالت یہ ہے کہ اب کوئی اقتدار میں نہیں آنا چاہتا۔ مفتاح جی نے ڈالر کی قدر 128روپے تک پہنچائی، جو موجودہ حکومت کے 100دن میں دو جھٹکوں میں 142روپے فی ڈالر تک جاپہنچی اور اگر آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل ہوا، تو خدشہ ہے کہ ڈالر 150روپے تک بھی جاسکتا ہے، نتیجتاً حکومت گر بھی سکتی ہے۔ حالاں کہ عام آدمی دعا کرتا کہ عمران خان کام یاب ہو، تاکہ عوام کو ریلیف ملے ۔ اس وقت پاکستان کا انحصار ترسیلاتِ زر پر ہے، جن کے بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ 20 فی صد بڑھی ہیں۔ جس ملک میں توازنِ ادائیگی کا خسارہ 40ارب ڈالر ہو، قرضے 95 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 100ارب ڈالر زسے زائد ہو جائیں، گردشی قرضے ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوں، نجی بینکس اپنا منافع ڈالرزمیں باہر لے جاتے ہوں، پی ٹی سی ایل 800 ملین ڈالر نجکاری کےادانہ کرے، تو پھر اس ملک کا وزیراعظم طاقت ور قوتوں کا ملازم ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور تیسری دنیا کی معیشتیں، جو اکثرسب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی ہیں، وہی عام طور پر عالمی معیشت میں آنے والی تبدیلیوں کے بعد جوابی کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے لیے مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے، لیکن مقروض اقوام پر مطابقت پیدا کرنے کے لیے جو شرائط تھوپی جاتی ہیں، وہ بہت زیادہ عدم استحکام اور عوام میں ناپسندیدگی کا باعث بنتی ہیں، کیوں کہ آئی ایم ایف ان کی بنیاد تین مقاصد پررکھتا ہے (الف) قرضے اور سود کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے سخت شرائط (ب) معیشت آزاد یا کھلی رکھی جائے۔ علاوہ ازیں، عالمی بینک کے مطابق، پاکستان سے ہر سال 10ارب ڈالرزملک سے باہر بھیج دیئے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قرضے ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑتے ہیں، جس کے باعث نج کاری پر زور دیا جاتا ہے۔ (ج) سرکاری ملکیت والے ادارے اور پبلک سیکٹر کم ہوں یا انہیں نجی ملکیت میں دے دیا جائے اور غریب طبقے کو مزید غیر محفوظ بنادیا جائے۔

عالمی نظام کے تحت آئی ایم ایف اور عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کے مطابق، مقروض ممالک، پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن اور ڈی کنٹرول کے جدید نیوورلڈ آرڈر نے (جو،اب خود بھی بحران میں ہے) غریب اقوام کے لیے مینوفیکچرنگ کے واحد سہارے، پبلک سیکٹر کا ہتھیار چھین کر انہیں مقابلے میں نہ صرف بے یارو مدد گار کر دیا ہے بلکہ انہیں زراعت سے غفلت کا سبق دے کر اعتماد کی ترنگ بھی چھین لی گئی ہے اور کریڈٹ کارڈز، قرضوں اور لیزنگ کے ذریعے کنزیومر ازم کے ماحول کو فروغ دے کر محض ادائیگیوں میں الجھا کے رکھ دیا ہے، لیکن 70سال سے ہمارے حکمران یہ گھنائونی معاشی سازش نہیں سمجھ سکے۔ پاکستانی اشرافیہ یا اپر کلاس، جو بیرونی طاقتوں کے حاشیہ بردار ہیں، انہوں نے شہر کے ہائی ویز، انڈر پاسز اور پُلز اس لیے بنائے کہ شہر میں بیرونی یا اسمبلڈ کاریں با آسانی گھوم پھر سکیں، لیکن عوام بھوک و افلاس ہی کا شکار رہے۔ عموماً ہائی ویز، شہروں کے درمیان اور دیہات سے شہروں تک تیار شدہ مال اور خام مال کے لیے بنائے جاتے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں پرائیویٹ کاریں قطار اندر قطار، ہائی ویز کو سیر سپاٹے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نان فائلر گاڑیاں نہیں خرید سکتے، لیکن جو گاڑیاں ہمارے ہاں اسمبل کی جاتی ہیں، حد درجہ فرسودہ ہیں۔ دبئی کی کاروں میں سب کچھ دستیاب ہے، ان میں کوئی سیفٹی کے خدو خال نہیں۔ ہم گاڑیوں کے شیدائی تو ہیں، مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے، تمام گاڑیاں، جن سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں وہ آلودگی کی آماج گاہ ہیں، کیوں کہ ٹیکنالوجی پرانی ہے۔ ایسا لگتا ہے، پاکستان گاڑیوں کے لیے بنایا گیا ہے، انسانی ہنرمندی کے لیے نہیں۔ اس لیے پاکستان سی پیک سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھاسکتا اور نہ ہی فوڈ پاور بن سکتا ہے، صرف ڈالرز کی عاشقی کا نقصان اٹھاتا رہے گا۔ سڑکیں کشادہ کرنے سے آلودگی کم نہیں ہوگی، بلکہ یہ سب کچھ مزید گاڑیوں کے لیے کیا جا رہا ہے، دو نمبری یا لیزنگ کے شیدائی مزید گاڑیاں لیں، کنزیومر ازم کو بڑھائیں اور روپے کی قدر اور گھٹادیں۔کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ اپنے وسائل بھول ہم اب تک کر آئی ایم ایف کی ہدایات پر جو اقدامات کرتے آئے ہیں، اُن کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ ان ہی کی وجہ سے پاکستان کو ری فنانسنگ کے لیے 30ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔ اور خاص طور پر یہ معاشی گندگی گزشتہ 40سال میں زیادہ پھیلائی گئی ہے۔ ہمیں 14ارب ڈالرز تو کرنٹ اکائونٹ اور ریزروز اور قلیل مدت کے لیے 10 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، جن کے لیے اپنے تمام تر اقدامات کو درست سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہوگا اور آئی ایم ایف جن اقدامات پر راضی ہوتا ہے، وہ کچھ اس طرح ہیں:

زرعی اصلاحات، جن میں چھوٹے کسانوں کے لیے تقسیمِ اراضی شامل ہو۔ ٹیکس اصلاحات، جن میں براہ راست ٹیکس امیروں سے لیے جائیں اور بالواسطہ ٹیکس کم کیے جائیں۔ حکومت کی جانب سے غریبوں کی مدد کے اقدامات اور عوام کو ہنرمند بنانا، فوڈ انڈسٹری اور زراعت، خاص طور لائیو اسٹاک فصلوں کی حکمت عملی تیار کرنا، درآمدات کم اور برآمدات بڑھانے کی طرف توجّہ دینا، زائد منافع خوری کرنے والوں کی اشیاء کی قیمتوں کا تعیّن ہر سطح پر کرنا، کیوں کہ مصنوعی طور پر زیادہ قیمتیں مقرر کرکے لُوٹا جاتا ہے۔ سرمائے کی منتقلی کو روکنا، کرپٹ افرادسے رقم کی واپسی کے لیے ٹھوس پالیسیاں بنانا اور ایسی پالیسیاں بنانا، جو محنت کشوں کی تنظیموں کو اجتماعی سودے کاری میں مدد دے سکیں۔نیز، روزگار پیدا کرنے کے لیے ملکی وسائل کا استعمال اور غیرملکی بینکوں اور نجی بینکوں کی منافع خوری کی باقاعدہ مانیٹرنگ ۔

لیکن.....کسی بھی حتمی فیصلے سے قبل یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط مان لینا قطعاً ملکی مفاد میں نہیں ہوگا۔ ماضی میں بھی ہم نے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ آئندہ بھی محض عارضی فوائد کے علاوہ کسی اچھائی کی توقع نہ رکھی جائے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ کوئی ملک، ہمارا سچّا، گہرا، بے لوث دوست نہیں، سب کے لیے ان کے اپنے مفادات پہلے اور اہم ہیں۔                   

تازہ ترین