• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرمیمونہ حمزہ

دنیا بھر کے تاجر اپنی آمدنی بڑھانے اور صارف کو متوجّہ کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کر تے ہیں۔ یہ آج کی کہانی نہیں، صدیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ طلب اور رسد کا رشتہ ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے۔کبھی طلب مصنوعی طور پر بڑھائی جاتی ہے، تو کبھی حقیقی طلب کو رسد کی کمی کر کے بڑھایا جاتا ہے۔ نیز، کبھی رسد کو اچانک بڑھا کر خوش نُما ذرائع سے طلب پیدا کی جاتی ہے۔ چوں کہ دنیا بھر میں کرسمس بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے اور سال کی سب سے زیادہ خریداری اسی مذہبی تہوار کے موقعے پر کی جاتی ہے، جس کے لیے عموماً نومبر کے آخر تک خریداری مکمل کر لی جاتی ہے، تو اسی لیے تاجر اس موقعے پر’’ خصوصی سیلز‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی سیل نومبر کے آخری ہفتے میں لگائی جاتی ہے، جسے’’تھینکس گِونگ سیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سیل دس روزہ ہوتی ہے اور اس کا آخری دن، ’’سب سے بڑی سیل‘‘ کا دن ہوتا ہے۔ ہفتہ، اتوار امریکا اور مغربی ممالک میں ’’ویک اینڈ‘‘ کہلاتا ہے۔ ان دو چھٹیوں سے پہلے والے جمعے کو یہ گرینڈ سیل لگائی جاتی ہے، جسے’’بلیک فرائیڈے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ عوام کا جمِ غفیر رات کے آخری حصّے میں شاپنگ مالز کے سامنے جمع ہو جاتا ہے تاکہ صبح دروازہ کُھلتے ہی خریداری کر لی جائے۔ خریداری کا حجم کتنا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس صرف برطانیہ میں صارفین نے ’’بلیک فرائیڈے‘‘ پر 5 بلین پاؤنڈز کی شاپنگ کی ، جو 2015ء کی شاپنگ سے پندرہ فی صد زائد تھی۔ اس موقعے پر کچھ اشیاء کی اصل قیمت پر86 فی صد تک سیل لگائی جاتی ہے۔

اسے’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ تاریخی طور پر تو کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ اس کی وجۂ تسمیہ واضح نہیں، تاہم جو کچھ بیان کیا جاتا ہے، وہ کچھ یوں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کا آغاز 1869 ء میں امریکا سے ہوا۔ بعض تاریخی شواہد کے مطابق، یہ نام سب سے پہلے 1960ء کی دہائی میں فلاڈیفیا میں سُنائی دیا اور اس کا استعمال وہاں کے ڈرائیورز اور پولیس اہل کاروں نے کیا، جو ٹریفک کی زیادتی اور شاہ راہوں پر لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے تنگ تھے۔ ایک خیال یہ ہے کہ اس روز بھیڑ کی وجہ سے سڑکوں پر بہت حادثات اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اس لیے اسے’’بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس روز سرکاری چُھٹی نہیں ہوتی، مگر دفاتر اور دیگر مقامات پر کام متاثر رہتا ہے۔ ورک پلیسز پر حاضری کی کمی اس نام کا سبب ہے۔ کاروباری حلقے اس نام کی ایک الگ ہی توجیہہ بیان کرتے ہیں۔ 1980ء میں ان کی جانب سے اس کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ اس روز تاجر اپنی سیل کے ذریعے اتنا فائدہ حاصل کر لیتا ہے، جتنا سال بھر میں نہیں کما سکتا، اس لیے وہ اس کے لیے سال کا سب سے اچھا دن ہوتا ہے۔ کاروبار کی زبان میں نقصان کو سُرخ روشنائی سے لکھا جاتا ہے اور فائدے کو سیاہ روشنائی سے۔ سو، اسی حوالے سے اسے’’بلیک فرائیڈے‘‘ کہا گیا۔بہرحال،’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کی کام یابی کے بعد تاجروں نے کچھ اور نام بھی متعارف کروائے، جیسے’’سائیبر مَنڈے‘‘ جس میں بلیک فرائیڈے کے بعد والے سوموار کو، بچ جانے والے سامان کی’’ آن لائن شاپنگ سیل‘‘ لگائی جاتی ہے تاکہ جو لوگ خریداری سے محروم رہ گئے، وہ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح ’’گوِنگ ٹیوز ڈے‘‘ بھی ہے، جس میں انفرادی چیریٹی کرنے والے، خیراتی ادارے اور تنظیمیں ضرورت مند افراد کے لیے کرسمس کی خریداری کرتی ہیں۔

1960ء میں کچھ لوگوں نے اس نام کو ’’بِگ فرائیڈے‘‘ سے تبدیل کرنا چاہا، لیکن اُنھیں کوئی خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ ہوئی اور پہلا نام ہی شہرت پا گیا۔ پھر یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ، آج دنیا ایک’’ گلوبل ویلیج‘‘ بن چکی ہے اور اس ویلیج کے ایک حصّے کے اثرات، دوسرے حصّے پر بھی لازماً مرتب ہوتے ہیں، تو یہی کچھ ’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کے معاملے میں بھی ہوا۔ اب یہ دن تقریباً پوری دنیا ہی میں منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے اپنی روایات، تہذیبی عناصر کی بجائے نقّالی ہی اہم ٹھہری۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے سب سے اہم تہواروں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کر دیا جاتا ہے، لیکن کرسمس سے پہلے’’بلیک فرائیڈے ‘‘ کی سیل کا پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھی زور و شور سے اہتمام ہوتا ہے۔کسی بھی مسلمان کے لیے’’ فرائیڈے‘‘ یعنی’’ یومِ جمعہ‘‘ ایک خاص حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک خالص اسلامی نام ہے، زمانۂ جاہلیت میں اسے ’’عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا، مگر جب اسے مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا، تو اس کا نام ’’جمعہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے عبادت اور خیر و برکت کا دن ہے اور کسی چیز کو سیاہ قرار دینا، بُرے احساس کو ابھارتا ہے، جیسے مقدر کی سیاہی، نامۂ اعمال کی سیاہی، اس لیے مسلمان ممالک میں اس لفظ کا جوں کا توں استعمال خاصی ناگواری کا سبب بن رہا ہے۔ اس برس بھی سوشل میڈیا پر اسی نام کی وجہ سے’’بلیک فرائیڈے سیل‘‘ کے بائیکاٹ کی مہم زوروں پر رہی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے اتنے پیارے دن کو ’’سیاہ نام‘‘ سے کیوں پکاریں؟ سوشل میڈیا پر عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہوئی اور اس سیل کے لیے کئی نام بھی تجویز کیے گئے، جن میں ’’بلیسڈ فرائیڈے‘‘ اور’’ گولڈن فرائیڈے‘‘ بھی تھے۔ ہمارا سعودی عرب کے ایک بازار میں جانا ہوا، تو یہ دیکھ کر دِل خوش ہو گیا کہ یہاں بھی نومبر کے آخری ہفتے کی زبردست سیل موجود تھی، لیکن اس کا نام’’ الجمعۃ البیضاء‘‘تھا اور قیمتوں میں ستّر فی صد تک کمی کی گئی تھی۔ انگریزی میں اسے ’’وائٹ فرائیڈے سیل‘‘ لکھا گیا تھا۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پورے مڈل ایسٹ میں یہ سیل’’ وائٹ فرئیڈے‘‘ ہی کے نام سے ہوتی ہے۔ تاہم، پاکستان میں دونوں ٹرینڈز چل رہے ہیں، کچھ لوگوں نے’’بلیک فرائیڈے‘‘ ہی کے نام سے سیل لگائی اور کچھ نے عوامی امنگوں کے عین مطابق اسے’’وائٹ فرائیڈے‘‘ کا نام دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر عوامی شعور نے مغرب سے مرعوب ہونے کی بجائے’’ وائٹ فرائیڈے‘‘ کا بھرپور استقبال کیا، تو بالآخر سیاہی، سفیدی میں ڈھلنے پر مجبور ہو ہی جائے گی، انشاء ﷲ۔

تازہ ترین