• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوہر علی خان، پشاور

4برس قبل 16دسمبر 2014ء کو مُلک کی تاریخ کا ایک ہول ناک ترین واقعہ پیش آیا۔ اُس روز ایک درجن سے زاید سفّاک دہشت گردوں نے دن دیہاڑے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اور علم کی روشنی کے حصول میں مصروف معصوم طلبہ اور دیگر افراد کو گولیوں سے بُھون ڈالا۔ ان شقی القلب اور درندہ صفت انسانوںنے ہنستے کھیلتے بچّوں کے خون کی وہ ہولی کھیلی کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور اس واقعے نے چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر کے ظلم و بربریّت کی یاد تازہ کر دی۔ اس حملے میں 134بچّوں سمیت تقریباً 150افراد شہید ہوئے ۔ اپنی جان، جانِ آفریں کے سُپرد کر دینے والوں میں اسکول کی بہادر و باہمّت پرنسپل، طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں۔ ان دہشت گردوں نے نہ صرف اس مُلک کے مستقبل کو خون میں نہلایا، بلکہ کئی گودیں بھی اُجاڑیں اوریہ سانحہ اپنے پیچھےکئی ایسی دِل خراش داستانیں چھوڑ گیا کہ جن کی بازگشت سے 4برس بعد بھی پشاور سمیت پورے مُلک کی فضا سوگ وار ہے۔ اس دل دوز سانحے کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا ذکر ہوتے ہی نظروں کے سامنے قیامتِ صغریٰ کے مناظر گھومنے لگتے ہیں، زبان ساکت اور آنکھ پرُ نم ہوجاتی ہے، جب کہ شہداء کے لواحقین کی آنکھوں سے تو آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔

تاہم، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ قیامت خیز واقعے کے 4برس بعد بھی شہداء کے لواحقین اور دیگر متاثرین انصاف کے منتظر ہیں اور بے قرار خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ گرچہ سانحہ اے پی ایس، پشاور کے بعد مُلک میں پھانسی پر عاید 6سالہ پابندی ختم کر کے دسمبر 2015ء میں دہشت گردی کے اس ہول ناک واقعے میں ملوّث 4مجرموں کو کوہاٹ جیل میں پھانسی دی گئی، جن میں مولوی عبدالسّلام، حضرت علی، مجیب الرحمٰن اور سبیل الیاس عرف یحییٰ شامل تھے۔ نیز، آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے دہشت گردی کے مقدّمات چلانے کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں، مگر شہداء کے ورثاء کے دِلوں کو تسلّی نہیں ملی۔ واقعے میں شہید ہونے والے طلبہ اُن پُھولوں کی مانند تھے کہ جو بِن کھلے مُرجھا گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مائیں اپنے جگر گوشوں، بہنیں اپنے وِیروںاور باپ اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو یاد کر کے سکتے میں آجاتے ہیں۔ اے پی ایس، پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران اسکول کی نڈر اور جرّی پرنسپل، طاہرہ قاضی نے ایثار و قربانی کی زندہ جاوید مثال قائم کی کہ وہ ننّھے طلبہ کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان سے گزر گئیں۔

آرمی پبلک اسکول، پشاور پر حملے جیسے قومی سانحے نے مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا تھا اور تمام سیاسی رہنمائوں نے متاثرین سے یک جہتی اور ہم دردی کا اظہار کیا، مگر افسوس صد افسوس کہ’’ رات گئی، بات گئی‘‘کے مقولے پر عمل پیرا ہماری سیاسی قیادت آج انہیں فراموش کر چُکی ہے۔ تاہم ’’دیر آید، دُرست آید‘‘ کے مصداق، شہداء کے والدین اور دیگر متاثرین کے اصرار پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 4برس بعد سانحے کی تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس محمّد ابراہیم خان پر مشتمل یک رُکنی کمیشن قائم کر کے اسے45روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ مذکورہ کمیشن نے عدالتِ عُظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور تادمِ تحریر شہداء کے والدین و ورثاء کمیشن کے سامنے سانحے کے حوالے سے اپنے بیانات قلم بند کروا رہے ہیں۔ یہ عدالتی کمیشن بیانات قلم بند کرنے کے علاوہ سانحہ اے پی ایس سے متعلق ریکارڈ کا بھی جائز لے گا اور اس کے بعد ہی سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ گرچہ تحقیقاتی کمیشن کا قیام تاخیر سے عمل میں لایا گیا ہے، لیکن اگر اس کی تحقیقات ثمر بار اور شہداء کے ورثاء اور دیگر متاثرین کے زخموں کے لیے مرہم ثابت ہوتی ہیں، تو یہ یقیناً ایک اچّھا اقدام ہو گا۔

تاہم، تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے حوالے سے جب فضل خان ایڈوکیٹ سے، جو سانحۂ اے پی ایس کے متاثرین کے لیے حصولِ انصاف کی غرض سے خاصے متحرک ہیں اور اس سانحے میں اپنا 14سالہ بیٹا ،صاحب زادہ محمّد عُمر خان بھی کھو چُکے ہیں، بات کی گئی، تو انہوں نے اس کمیشن پر تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس کمیشن سے کسی صورت مطمئن نہیں، کیوں کہ یہ ہمارے مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ کمیشن متاثرین کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے مترادف ہے۔‘‘ فضل خان ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہم (متاثرین) نے ایک ایسا با اختیار کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا کہ جو مُلک کے مقتدر اداروں کے خلاف بھی تحقیقات کر ے، جب کہ موجودہ کمیشن اتنی سکت نہیں رکھتا۔ پھر سانحۂ اے پی ایس کے خلاف درج کروائی گئی ایف آئی آر بھی دُرست نہیں۔ ہم نے دُرست ایف آئی آر کے اندراج کے لیے آئینی پٹیشن دائر کی تھی، مگر ہماری اس کاوِش کا بھی کوئی قابلِ ذکر نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ تحقیقاتی کمیشن صرف انٹرویوزہی تک محدود رہے گا۔ ‘‘

سانحہ آرمی پبلک اسکول، لواحقین انصاف کے منتظر
فضل خان ایڈوکیٹ

فضل خان ایڈوکیٹ کے مطابق، ’’یہ کمیشن کافی تاخیر سے بنایا گیا ہے، کیوں کہ رواں برس مئی میں اس کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، مگر یہ اکتوبر میں قائم کیا گیا، جب کہ اعلان کے برعکس ہائی کورٹ کے کسی سینئر جج کو کمیشن کا سربراہ مقرّر کرنے کی بہ جائے جونیئر جج پر مشتمل کمیشن بنایا گیا ہے۔ ہر چند کہ یہ کمیشن اب تک اچّھے خاصے افراد کے بیانات ریکارڈ کر چُکا ہے، جن میں زیادہ تر شہداء کے ورثا شامل ہیں، تاہم یہ مقرّرہ مدّت تک اپنا کام مکمل نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی مدّت میں توسیع کی درخواست دی ہے ۔ نیز، یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ سانحۂ آرمی پبلک اسکول کے حقائق جاننے کے لیے اقوامِ متّحدہ یا یورپی یونین کے منشور کے تحت تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5ججز پر مشتمل ایک مضبوط اور با اختیار کمیشن تشکیل دیا جائے، جو مُلک کے طاقت وَر اداروں سے تحقیقات کر کے سانحے کے ذمّے داروں کا تعیّن کرے۔ سانحۂ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچّوں اور دیگر افراد کے لیے انصاف کے حصول کی غرض سے ہماری جدوجہد اُس وقت تک جاری رہے گی کہ جب تک اس اندوہ ناک واقعے کے اصل منصوبہ ساز سامنے نہیں آ جاتے۔ ‘‘ فضل خان ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’’ابتدا میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس واقعے میں تحریکِ طالبان پاکستان ملوّث ہے، جب کہ آج ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر، احسان اللہ احسان کو نہ صرف سرکاری مہمان بنا کر رکھا گیا ہے، بلکہ اسے معافی دینے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔اگر اس واقعے کی ذمّے دار ٹی ٹی پی ہے، تو پھر احسان اللہ احسان کسی طور بھی معافی کا حق دار نہیں۔ پھر چُوں کہ دہشت گردی کا واقعہ پاک فوج کے زیرِ انتظام اسکول میں رُونما ہوا ہے، تو اس کا مقدّمہ بھی فوجی عدالت ہی میں چلایا جانا چاہیے۔‘‘

سانحۂ اے پی ایس، پشاور کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کی رپورٹ کب سامنے آئے گی اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، اس کا اندازہ تو رپورٹ آنے کے بعد ہی ہو گا(ان سطور کی اشاعت تک رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی)مگر یہ بات طے ہے کہ 16دسمبر آتے ہی شہداء کے لواحقین اور دیگر متاثرین سمیت پاکستان بَھر کے عوام غم و اندوہ میں ڈُوب جاتے ہیں، کیوں کہ اس واقعے کی دِل خراش یادیں فراموش کرنا ممکن نہیں۔ تاہم، اگر ہمارے حُکم ران ہمّت و جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے اس سانحے کے ذمّے دار درندہ صفت انسانوں کو تختۂ دار تک پہنچائیں، تو شہداء کی رُوح کو سکون اور دیگر متاثرین اور لواحقین کو تسلّی ضرور ملے گی۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو زبانی جمع خرچ کی بہ جائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، لیکن بد قسمتی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حُکم رانوں کو عوام کی بہ جائے صرف سیاسی بُحران ٹلنے کی فکر تھی، جو ٹل گیا ہے۔ تاہم، دیکھنا یہ ہے کہ ان معصوم شہداء کے ورثاء کو انصاف ملے گا یا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے دیگر بے قصور شہریوں کی طرح ان کا خون بھی رائیگاں چلا جائے گا۔

تازہ ترین