• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس فانی دنیا میں کچھ لوگ اپنے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار کے اَن مٹ نقوش چھوڑ کرہمیشہ کے لیے امَر ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی ہستیوں میں سے ایک ہستی کی کچھ یادیں شیئر کرنا چاہتی ہوں کہ جن کی چاہت، خلوص اور محبت کی خوشبو ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ تذکرہ میری نند، میرے شوہر کی بہن، ربیعہ باجی کا ہے۔ ربیعہ باجی یوں تو میرے شوہر کے نو بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں، لیکن میں آج تک اپنے ساتھ ان کا رشتہ سمجھ نہیں سکی کہ وہ میری نند تھیں، بڑی بہن تھیں، دوست تھیں یا رہنما؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ میرے لیے سب کچھ تھیں۔ ان کے بارے میں لکھتے ہوئے آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں۔ میری شادی کو ابھی چند برس ہی ہوئے تھے کہ ربیعہ باجی سے دائمی جدائی کا صدمہ جھلینا پڑا۔ اگرچہ گائوں میں مقیم ہونے کی وجہ سے باجی کے ساتھ کم عرصہ گزرا۔ تاہم، اس قلیل عرصے میں بھی انہوں نے اس قدر خلوص اور اپنائیت دی کہ جسے تازیست بُھلایا نہیں جاسکتا۔ وہ میری رخصتی کے بعد سسرال میں پہلی صبح تھی، جب میں ان کے پاس پہنچی۔ نومبر کی ٹھنڈی ٹھندی فضا میں وہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر کھڑی ہوگئیں اور اپنی جگہ بٹھاکر حال احوال پوچھا، پھر کچھ ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد گھر کے ایک ایک فرد سے متعلق آگاہی دی۔ انہوں نے صرف گھر کے تمام افراد کا تذکرہ ہی نہیں کیا، بلکہ فرداًفرداً سب کے انداز و اطوار اور مزاج کے بارے میں بھی تفصیل سےبتایا اور آخر میں نئے گھر میں ایڈجسٹ ہونے کے حوالے سے چند مفید مشورے بھی دئیے، جو آج بھی میرے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

میرے شوہر کا بھائیوں میں تیسرا نمبر ہے، مجھ سے بڑی دو بھابھیاں ہیں۔ گھر میں جب بھی کوئی ایسی ویسی بات ہوتی، ربیعہ باجی ہمیشہ بھابھیوں کی طرف داری کرتیں اور بھائیوں کو نصیحت۔ اگرہمیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی، تو خودبھائیوں کواحساس دلاتیں۔ شادی کے بعد پہلی عید پر میرے شوہر کو تاکیدکی کہ صائمہ کی پہلی عید ہے، خود اسے بازار لے کے جانا، تاکہ وہ اپنی مرضی سے شاپنگ کرلے۔ پھر دو دن بعد مجھ سے تصدیق کی کہ تمہیں بازار لے کر گیا کہ نہیں۔ وہ نند، بھاوج کے روایتی کردار کے سخت خلاف تھیں۔ ہمیں تو اپنے حق کے لیے بولنا سکھایا، مگر خود کبھی انہیں اپنے حق کے لیے کسی سے گِلہ نہ کیا۔ جو ملا،ساری زندگی اسی پہ راضی بہ رضا رہیں۔ عاجزی و انکساری میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ کبھی بازار گئیں، نہ کبھی اپنی پسند کے کپڑے و دیگر اشیاء خریدیں۔ جو بھی لے آتا، خوشی خوشی پہن لیتیں، بلکہ اکثر اوقات تو اپنی والدہ یا بھابی کے کپڑے پہنے رہتیں۔ ہمیشہ معمولی سے کپڑے اور ایک بڑی سی چادر میں لپٹی رہتیں۔ ایک بار میں ان کے لیے چوڑیوں کا سیٹ لے گئی اور کہا کہ ’’باجی! مجھے اپنا ہاتھ دیں، مَیں آپ کو چوڑیاں پہنائوں۔‘‘ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ’’میں نے آج تک یہ سب نہیں پہنا، رہنے دو۔‘‘ لیکن میں نے بے حد اصرار کرکے بالآخر انہیں چوڑیاں پہناہی دیں، مگر جب اگلے روزخالی ہاتھ دیکھ کر استفسار کیا، تو بڑی معصومیت سے کہنے لگیں ’’مجھے الجھن ہوتی ہے۔‘‘ کسی کو اچھا کپڑا، زیور پہنے دیکھتیں، تو ضرور تعریف کرتیں، مگر اپنے لیے ہمیشہ سادگی کو ترجیح دی۔ آج میں سوچتی ہوں کہ وہ اخلاق اور خلوص کی دولت سے اس قدر مالامال تھیں کہ انہیں واقعی ظاہری اور بناوٹی سجاوٹ کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ گھر میں ایک ساتھ رہتے ہوئے کبھی کسی کے ناگوار رویّے یا غلط فہمی سے دل آزاری بھی ہوجاتی ہے، لیکن آفرین ہے، ہم نے کبھی باجی کے رویّے سے یہ محسوس نہ کیا کہ انہیں کسی کی کوئی بات بری لگتی ہے، کبھی ان کے منہ سے کوئی تلخ بات سنی، نہ ہی ان کے رویّے سے کبھی کسی درشتی کا احساس ہوا۔ ہمیشہ ان کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ پھیلی رہتی۔

اللہ تعالیٰ کو جب اپنے پیارے بندوں کو اپنے پاس بلانا ہوتا ہے، تو کوئی نہ کوئی سبب بن ہی جاتا ہے۔ ربیعہ باجی کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اچانک پتا چلا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں اور مرض کی تشخیص بھی اس وقت ہوئی، جب وہ آخری اسٹیج پر تھا، لیکن آفرین ہے، ربیعہ باجی پر کہ انہوں نے انتہائی صبر و حوصلے سے کام لیا۔ کبھی مرض کی شدّت اور تکلیف کا اظہار نہیں کرتیں، ایک دن بہت تکلیف میں تھیں، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، کہنے لگیں ’’یااللہ! تُونے بیماری دی ہے، تو صبر بھی دے، میرے اجر کو ضائع نہ کرنا، مجھے بیماری سے لڑنے کی ہمّت دے۔‘‘ جوں جوں مرض بڑھتا گیا، ان کا چلنا پھرنا مشکل ہوگیا، مگر عیادت کے لیے آنے والوں سے ہمیشہ گرم جوشی سے ملتیں، زندگی سے بھرپور گفتگو کرتیں اور پھر بالآخر اس موذی مرض کا ہمّت و استقامت سے مقابلہ کرتے کرتے، اس فانی دنیا سے دائم آباد رخصت ہوگئیں۔ ہمیں تو ان کے جانے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ صرف اپنے گھر ہی نہیں بلکہ خاندان اور تمام حلقہ ٔ احباب کا محورو مرکز تھیں۔ ان کے جنازے پر خواتین، بچّوں، نوجوانوں اوربوڑھوں سب ہی کا رش تھا۔ ان کی موت نہ صرف ان کے والدین، بہن بھائیوں، شوہر اور بچّوں کے لیے دھچکا تھی، بلکہ ان کی زندگی سے وابستہ ہر شخص کے لیے ایک بڑا صدمہ تھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری ربیعہ باجی کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ ان کے بچّوں کو ان کے لیے صدقہ ٔ جاریہ بنائے اور میری اس تحریر کو ان کے حق میں گواہی کے طور پہ قبول فرمالے،آمین۔

(صائمہ عبدالقدوس (پی ایچ ڈی اسکالر ماس کمیونی کیشن)، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور)

تازہ ترین