• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے اس سے نمٹنے کے لئے حکومت جہاں سرمایہ کاری بڑھانے، درآمدات وبرآمدات میں فرق کم کرکے تجارتی خسارہ گھٹانے، کرپشن کی تمام صورتوں کے مکمل خاتمے اور کاروبار کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹیں ہٹانے پر بھرپور توجہ دے رہی ہے وہاں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حقیقی مقاصد کے حصول کیلئے بھی پوری طرح کوشاں ہے۔ اس اسکیم کے تحت ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکس گزاروں کو بعض مراعات دے کر انہیں قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب دی گئی تھی جس کا عوامی سطح پر ردعمل بہت مثبت تھا لیکن اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو بعض مشکلات بھی پیش آئیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں تاجروں سے گفتگوکرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کو نوٹس دے کر بلایا یا ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے ظاہر نہ کئے گئے ملکی اور غیرملکی اثاثوں کو رضا کارانہ طور پر ظاہر کرنے کیلئے دو ایمنسٹی اسکیموں کا اعلان کیا تھا، جنہیں پارلیمنٹ نے ایکٹ2018کے تحت قانونی شکل دی۔ ابتدا میں ان اثاثوں کے گوشوارے داخل کرنے کیلئے 30جون 2018مقرر کی گئی تھی جسے بعد میں 31جولائی تک بڑھا دیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11جولائی تک 55225گوشوارے داخل کئے گئے جن کے تحت 557ارب روپےکے بیرون ملک اور 1192 ارب روپے کےاندرون ملک اثاثے ظاہر کئے گئے۔ ان اثاثوں پر97ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا گیا۔ علاوہ ازیں تقریباً 40ارب ڈالر کی رقم وطن واپس منتقل کی گئی ۔ وزارت خزانہ نے اس عمل پر قریبی نظر رکھی اور ایف بی آر اورا سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ادائیگیوں کا طریق کار بہتر بنانے اور سہولتوں میں اضافے کے لئے ہدایات بھی جاری کیں اس سے جہاں اربوں روپے کا ٹیکس قومی خزانے میں آیا وہاں معیشت کو دستاویزاتی شکل دینے میں بھی مدد ملی۔ تاہم بعض ٹیکس گزاروں کی جانب سے یہ شکایات بھی منظر عام پر آئیں کہ متعلقہ ادارے ایمنسٹی کے تحت ان سے رعایت برتنے کی بجائے ان پر بے جا سختی کر رہے ہیں اور ناجائز نوٹس جاری کر کے ان کی عزت نفس مجروح کی جارہی ہے۔ وزیراعظم کا اس حوالے سے موعودہ اقدام نہایت مناسب ہے۔ پاکستان میں ٹیکس نظام پیچیدہ ہے اسے سہل بنانے کے لئےایک عرصے سے ٹیکس اصلاحات کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ کسی بھی ملک کا نظام ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا ملک کا سرحدی دفاع ہو یا اندرونی امن و استحکام، عوامی فلاح وبہبود کے کام ہوں یا دوسرے ضروری امور، ان کے اخراجات ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں ٹیکسوں کے بغیر اسکول اور اسپتال بن سکتے ہیں نہ سڑکیں اور ریلوے لائنیں، اس لئے عوام ٹیکسوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ان کے خدشات اور تحفظات بھی اپنی جگہ قابل غور ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ ٹیکس بہت زیادہ لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس کے قابل آمدنی وسائل پوری طرح ظاہر نہیں کرتے اور ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ٹیکسوں کا استعمال منصفانہ نہیں ہوتا، ٹیکس رقوم حکومتی اور سرکاری عمال کے اللے تللوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ ایک طرف کچھ لوگ ہیں جو پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں پھر بھی ٹیکس اہلکار ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے محاسبے سے صاف بچ جاتے ہیں۔ ٹیکس نظام اعتماد سے عاری ہونے کے باعث موثر ٹیکس کلچر فروغ نہیں پا سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے ٹیکس گزاروں کو عزت و تکریم دی جائے، ٹیکس ایمنسٹی دینے کے بعد کسی کو ناجائز طور پر ہراساں نہ کیا جائے، بلا جواز نوٹس جاری کر کے انہیں پریشان نہ کیا جائے۔ ٹیکس دینے والوں کی عزت ہو گی تو جو نہیں دیتے وہ بھی خوشی سے دینے پر آمادہ ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے پر فوری توجہ دی جائے۔

تازہ ترین