• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی رواں دواں ہے۔ قومی قافلے چلتے رہتے ہیں اور منزلیں طے ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح کچھ واقعات، حادثات اور فتوحات تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں اور بار بار اپنی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ انسان بنیادی طور پر حال میں زندہ رہتا ہے اس لئے خود اسے بعض اوقات اندازہ نہیں ہوتا کہ آج کی پیش رفت، آج کا واقعہ اور آج کے الفاظ کل تاریخ کا رخ موڑ دیں گے یا تاریخ کے صفحات پر سنہرے الفاظ بن کر جگمگاتے رہیں گے۔ مطلب یہ کہ آج کا فیصلہ کل کرتا ہے۔ مثلاً قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان 23مارچ 1940ءکو منظور کی گئی۔ یہ فیصلہ ازل سے تھا کہ پاکستان معرض وجود میں آنا ہے اور تقسیم ہند ناگزیر ہے۔ میں تاریخ کو گہری نگاہ سے پڑھتا اور دل کے آئینے میں دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ قدرت قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے لئے صدیوں سے واقعات تراش رہی تھی، راہ ہموار کر رہی تھی اور حالات کے دھارے اور تاریخ کے عمل کا رخ اس طرف موڑ رہی تھی جس کا لازمی نتیجہ قیام پاکستان کی صورت میں بہرحال نکلنا تھا۔ فرقہ وارانہ اتحاد اور ہندوستان کو متحد رکھنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی چلی گئی۔ بعض اسکیموں میں نیک نیتی بھی شامل تھی اور ارادے بھی لیکن ارادے ناکام بنا دیئے گئے۔ چنانچہ جو ازل سے طے تھا وہ ہو کر رہا۔ 23مارچ 1940ء کا ریزولیوشن پیش کرنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کو ہرگز یقین نہیں تھا کہ ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا اور اگر ہو گا بھی تو صرف سات برس کے اندر اندر۔ یہ 1940کیا 1946تک ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ قدرت نے ناممکن کو ممکن بنا دیا تو تاریخ کے کرداروں میں اس قدر جوش و جذبہ پیدا ہو گیا کہ جب اپریل 1946ء میں انتخابات کے بعد مسلم لیگ نے منتخب شدہ صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے اراکین کا دہلی میں کنونشن بلایا تو مسلمانوں کے منتخب کردہ اراکین نے ’’حلفیہ‘‘ کہا کہ وہ پاکستان حاصل کئے بغیر نہیں رہیں گے، وہ حصول پاکستان کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ قرارداد میرے پسندیدہ مگر مظلوم سیاسی کردار حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی اور مجھے کئی دہائیاں قبل ایک مستند ’’حوالے‘‘ نے بتایا تھا کہ سہروردی نے اپنی انگلی سے خون نکال کر دستخط کئے تھے اگرچہ آج 72سال بعد ان مقدس نشانات کی تلاش شکست آرزو معلوم ہوتی ہے۔ یاد آیا ’’شکست آرزو‘‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس وقت میرے سامنے پڑی ہے۔ اس کے مصنف جناب محترم ڈاکٹر سید سجاد حسین صاحب ہیں جو راج شاہی اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ ان کی تعلیمی خدمات کا اجر اُن کو جس طرح دیا گیا اور جس طرح انہیں دسمبر 1971ء میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا وہ ایک عبرت ناک باب اور تکلیف دہ کہانی ہے۔ مصنف نے اسے جو نام دیا ہے وہ بذات خود بولتا ہے ’’میں کس طرح موت کے منہ سے نکلا‘‘۔

دسمبر آتا ہے تو اپنے دامن میں یادوں کے پھول بھی لاتا ہے اور وہ نوک دار کانٹے بھی جنہوں نے ہمارے پائوں اس طرح چھلنی کئے کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں اور پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان حائل ہو گئیں۔ تاریخ ایک عبرت کدہ ہے مگر اُن کے لئے جو غور کرتے ہیں۔ جو غور و فکر کی زحمت سے محفوظ ہیں وہ ’’خوش قسمت‘‘ ہیں کہ صدمات سے محفوظ ہیں۔ دسمبر بانی پاکستان کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ عالمی تاریخ کا وہ منفرد راہنما جس نے بیک وقت ایسے کارنامے سرانجام دیئے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قائد اعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے۔ ہم ہر سال 25دسمبر بانی پاکستان کی پیدائش کے حوالے سے مناتے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں ایک تاریخ ساز عظیم لیڈر عطا کیا۔ میں جب بھی تاریخ کو بغور پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر قائد اعظم نہ ہوتے تو کیا پاکستان عالمی نقشے پر ابھرتا؟ باطن سے جواب آتا ہے، نہیں۔ جس قدرت نے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تھا اسی قدرت نے اس منزل کے حصول کے لئے مہرے بھی پیدا کئے تھے۔ 25دسمبر کی یاد گلابوں کی مہک لاتی ہے تو 16دسمبر کی یاد ایسی آگ جلاتی ہے جس کی تپش اور حدت مجھے پگھلانے لگتی ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کا واقعات (EVENTS)پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا بجز اس کے کہ خوشبو سونگھ کر روح کو خوشیوں اور شکر گزاری کے احساسات سے بھر لیں اور جب آگ کی تپش محسوس ہو تو اسے دوچار آنسوئوں سے بجھانے کی کوشش کرنے لگیں حالانکہ ہمارے آنسو کس کام کے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کے لئے تنور کو بھڑکایا جا رہا تھا تو فضا میں ایک پرندہ بھی موجود تھا جس کی چونچ میں چند قطرے پانی کے تھے جن سے وہ آگ بجھانا چاہتا تھا۔ اے کاش کچھ ایسے ہی پرندے 15،16دسمبر 1971ء کو آئے ہوتے جو مشرقی پاکستان میں لگی آگ کو بجھا سکتے۔ مرشد اقبال کا فرمان درست ہے کہ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے لیکن ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔ ملت کے گناہ اسی روز انتہا کو پہنچ گئے تھے جب فوجی حکمران یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کے بڑے لیڈر کے ساتھ مل کر انتقالِ اقتدار کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا جس کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت کی ایسی آگ پھیلی کہ ہزاروں مغربی پاکستانی قتل کر دیئے گئے اور قانون کو پائوں تلے مسل دیا گیا۔ فوجی حکمرانوں کے پاس اس سیاسی مسئلے کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ تھا فوجی ایکشن۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ پاکستان اسی روز ٹوٹ گیا تھا جس دن آرمی ایکشن ہوا۔ اب صرف اس عمل یا ردعمل کو منطقی انجام تک پہنچانا تھا اور وہ فریضہ ہندوستان نے نہایت مہارت سے سرانجام دیا جو دہائیوں سے اس کے لئے کام کر رہا تھا اور جو تاریخ سے تقسیم کا انتقام لینے کے لئے بے چین تھا۔ یوں وہ پاکستان ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے لئے 23مارچ 1940ء کو قرارداد ایک بنگالی لیڈر فضل الحق عرف شیر بنگال نے پیش کی تھی اور جس کے حصول کے لئے دوسرے بنگالی لیڈر سہروردی نے مسلم لیگ کے اپریل 1946ء کے کنونشن میں نہ صرف قرارداد پیش کی تھی بلکہ بقول شخصے اپنے خون سے دستخط کئے تھے۔ بنگالی بھائی شیخ مجیب الرحمٰن کو بانگے بندھو اور بنگلہ دیش کا بانی کہتے ہیں جو بالکل درست ہے۔ میں 1998ء میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا منتخب رکن تھا تو مجھے ایک وفد کا سربراہ بنا کر بنگلہ دیش بھیجا گیا۔ ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کی سیڑھیوں پر کھڑا میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ وہ سیڑھیاں ہیں جہاں مجیب الرحمٰن اور اس کے خاندان کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اس کے خاندان سے صرف حسینہ واجد بچی جو آج کل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہے۔ سیڑھیوں پر کھڑے مجھے شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتل کرنل فاروق کا انٹرویو یاد آ رہا تھا کہ ہم نے آزاد بنگلہ دیش کے لئے جنگ لڑی تھی لیکن مجیب نے ہمیں ہندوستان کی کالونی بنا دیا چنانچہ ہم نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے بنگالی ان پرندوں کی مانند ہیں جو اپنی چونچوں میں آگ بجھانے کے لئے چند قطرے پانی لائے۔ حسینہ واجد انہیں چن چن کر پھانسیاں دے رہی ہے۔ لگتا ہے وہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل نکلی ہے.....انجام؟؟ 

تازہ ترین