• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہرطرف باتوں کی جادوگری جاری ہے۔ جس قوم میں رانا ثناء اللہ اور خورشید شاہ رہنمائوں کا روپ دھار لیں وہاں کئی جادونگریاں آباد ہو جاتی ہیں۔ یہاں کبھی لوہے کے چنے برآمد ہوتے ہیں، کبھی جعلی اکائونٹس اور کرپشن کے بازار کی ایک فکر پر وکالت کے لئے خواجہ حارث کھڑے ہیں تو دوسرے کونے پر فاروق ایچ نائیک مسکرارہے ہیں۔ پتا نہیں کہ یہ ہنس مکھ فاروق ایچ نائیک اپنی وکالت پر مسکراتا ہے، سیاستدانوںکی حماقتوںپر، کرپشن پر یا پھر اپنی مفید فیسوں پر۔ خواجہ حارث کا تو سیدھا سیدھا معاملہ ہے۔ وہ خواجہ خورشید انور کے بھتیجے ہیں، لمبا راگ چھیڑ دیتے ہیں، اس سے فیسیں بھی لمبی ہو جاتی ہیں اور تان بھی نہیں ٹوٹتی۔

کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کے معروف صحافی شمشاد مانگٹ کی کتاب ’’سیاسی چور‘‘ سامنے آئی۔ ان کے نام کا پہلا حصہ شمشاد عورتوں اورمردوں کے لئے مشترکہ نام ہے ہاں البتہ مانگٹ کے پھاٹک نے یہ بتا دیا ہے کہ ان کی تحریریں ملک لوٹنے والوںکا احتساب کر رہی ہیں۔ کتاب کے نام ہی سے واضح ہے کہ یہ کن ’’فرشتوں‘‘ کے بار ےمیں لکھی گئی ہے۔ مزید وضاحتوں کی کیا ضرورت ہے؟ اس کتاب میں چور، چوریوں سمیت بے نقاب ہوتے ہیں۔ شمشاد مانگٹ کا شمارویسے بھی کھوج لگانے والے صحافیوں میں ہوتا ہے یعنی جنہیں لوگ انویسٹی گیشن کے ماہر کہتے ہیں۔ یہ کتاب اپنے اندر عہد کرپشن کی کئی داستانوں کو سموئے ہوئے ہے۔ کس طرح کرپشن کے پہلوان ایک دوسرے سے ’’فرینڈلی‘‘ مات کھاتے ہیں، کس طرح ریشمی رومال پیش کرتے ہیں۔

کرپشن سے یاد آیا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تازہ فرمان سامنے آیا ہے کہ اگر کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہو جائے گی۔ پتانہیں آبادی کم کرنے کا یہ نایاب نسخہ جسٹس جاوید اقبال نے کہاں سے حاصل کیا ورنہ ابھی تک تو ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کا گیت چلتا تھا۔ نیب کے چیئرمین مزید فرماتے ہیں کہ ’’ڈکٹیشن لیں گے نہ ہی انتقامی کارروائی کریںگے۔ ظل الٰہی کا دور گزر چکا۔ بدعنوانی پر ہر ایک کوحساب دینا پڑے گا، جن کے پاس موٹرسائیکل تھی اب دبئی میں ٹاورز ہیں، پوچھ لیا تو کیا گستاخی ہوگئی؟ نیب کی وفاداری ریاست کےساتھ ہے، حکومت نے مکمل تعاون کیا، بیوروکریسی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نہ بنے۔‘‘ چیئرمین نیب نے ان خیالات کااظہار ایوان صدر میں ہونے والی ایک تقریب میں کیا۔ اسی تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بتایا کہ ’’کرپشن ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اربوں ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہیں جبکہ ہم دو چار ارب ڈالرکےلئے مختلف ملکوں سے تعاون کےطلبگار ہیں۔ کرپشن پوری انسانیت پر حملہ ہے۔ قیادت کی بنیاد امانت اور سچائی ہونی چاہئے۔ کرپٹ عناصر کے اثاثوں کا پوچھا جانا چاہئے ۔‘‘ ہم سب ابھی تک پریشان تھے کہ مشرقی پاکستان کیسے الگ ہو گیا ، اس کی کیا وجوہات تھیں، پس پردہ کیا سازشیں تھیں۔ ہمارا یہ مسئلہ بھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حل کر دیا ہے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بتا دی ہے۔یہ وجہ کرپشن ہے۔ عارف علوی کے بقول علیحدگی کی وجہ استحصال کم جبکہ بدعنوانی زیادہ تھی۔

کرپشن کے خلاف تمام باتیںٹھیک ہیں، اس میں کوئی شک نہیںکہ ملکوںکی ترقی کرپشن کے باعث رک جاتی ہے۔ کرپٹ لوگوںکا علاج ہونا چاہئے۔ یہی قوم کا خیال اور خواب ہے مگر یہ جو کرپٹ لوگوں کو سزائے موت دے کر آبادی کم ہونے کا نسخہ ہے یہ سمجھ نہیں آرہا۔ اگر ہمارا معاشرہ اسلامی اصولوں پرعملدرآمد شروع کردے توآبادی خودبخود کنٹرول ہو جائے گی۔ اگر بچے کو ماں کا دودھ پلایا جائے تو آبادی کنٹرول ہو جائے گی۔ اگر مرد ایک سے زائد شادیاں کریں تو پھر بھی آبادی کنٹرول ہوسکتی ہے۔شادی کے معاملےپر ہمارے معاشرے پرہندو ازم اور عیسائیت کا عکس زیادہ نظر آتا ہے۔ دوچار سال پہلے پنجاب اسمبلی میں ثمینہ خاور حیات نے اس سلسلے میں قرارداد پیش کی تھی کہ مرد کو ایک سے زائد شادیاں کرنی چاہئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس قرارداد کی روشنی سے بھرپور استفادہ ہونا چاہئے۔

دو تین باتیں بڑی نرالی سامنے آئی ہیں۔ پہلی نرالی بات رانا ثنا ءاللہ کی جانب سے آئی ہے انہوںنے قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ نثار کھوڑو کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی قبل ازوقت انتخابات کی حمایت کرے گی۔ سید خورشید شاہ کو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ انہیںآمریت کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی علم الاعداد کی روشنی میں علمی مہارت سے عددی اکثریت بھی بتا دی ہے۔ سب سے انوکھی بات بیرسٹر محمد علی سیف نے کی ہے۔ سینیٹر سیف فرماتے ہیں کہ ’’سیاستدانوں کو سیاچن میں فوج کے ساتھ وقت گزارنا چاہئے۔‘‘ یہ تو فوج کی بہادری ہے کہ سیاچن میں گزارہ کرلیتی ہے۔ سیاستدانوں کےلئے یہ کام بہت مشکل ہے۔ ایسی مشکل باتیں نہ کیا کریں۔

سو دنوں کا چکر جان نہیںچھوڑ رہا۔ میرے خیال میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ کام پنجاب کے وزیر کھیل تیمور علی بھٹی نے کیا ہے۔وہ 15دسمبر سے ایک ایسا پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں جو پنجاب میں کھیل کے میدان آباد کردے گا۔ اس سے اسپتالوںمیں مریضوںکی تعداد کم ہو جائے گی۔ تیمور بھٹی نے جو منصوبہ بندی کی ہے وہ بڑی کمال ہے۔ اب پنجاب میں تحصیل کی سطح پر اسپورٹس کمپلیکس بنائے جائیں گے۔ پورے پنجاب میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کھیلوں کے مقابلے کروائے جائیں گے۔ اب پورے پنجاب میں دوران تعلیم ہر سطح پر کھیل کو لازمی قرار دیا جائے گا۔ اس پوری حکمت عملی کو ترتیب دینے پر تیمور بھٹی کو شاباش۔ ایسا ہو گیا تو بہت کچھ ہو جائے گا۔ بقول فرحت زاہد؎

اِک دریا، ایک گھڑا ہے

آسے پاسے، عشق کھڑا ہے

تازہ ترین