• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں …سردار احمد قادری
جلال پورپیروالا میرا آبائی شہر ہے اور یہاں میری پیدائش ہوئی یہاں پر ہی ہمارے آبائواجداد کی قبریں ہیں اور شاید میں بھی ایک دن اسی سرزمین میں دفن ہوجائوں گا، وہ شہر جس کی گلیوں میں آپ کا بچپن، آپ کا لڑکپن، آپ کی جوانی گزری ہو اس کی صبحوں،شاموں، گرمیوں سردیوں، برساتوں، آندھیوں ، بہاروں، خزائوں کو آپ کیسے بھول سکتے ہیں۔ انسان کو اس کا بچپن اور جوانی کا دور ویسے ہی سہانی یادیں لگتا ہے اور ہمارا بچپن، لڑکپن تو ایسے جلال پور میں گزرا جو ہر لحاظ سے ایک مثالی شہر تھا۔ شہر کیا تھا اس وقت تو ایک قصبہ تھا جس کی آبادی تیس سےچالیس ہزار کے لگ بھگ ہوگی اب یہ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل لوگوں کا شہر ہے۔ تحصیل کا ہیڈکوارٹر ہے، تمام سرکاری دفاتر موجود ہیں جہاں کبھی صرف ہائی سکول ہوا کرتا تھا اب وہاں ڈگری کالج ہے، ایک یونیورسٹی کا بورڈ بھی دیکھا، موٹروے شہر کے ساتھ ہی بن رہی ہے۔ہر طرف دوکانوں، سرکاری دفاتر، بنکوں، ریستورانوں، لاری اڈوں اور منی ویگنوں اور کوچز کے سٹینڈز کے مناظر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ وہ پہلے والا جلال پور نہیں ہے جس میں شہر کے اندرونی علاقے میں چنددوکانیں دو بنک اور ایک لاری اڈہ ہوتا تھا۔ ریستورانوں کا کوئی تصور نہیں تھا، پکوڑے والا پنی ریڑھی پر چھابے میں گرم گرم روٹیاں بھی رکھتا تھا جسے پکوڑوں کے ساتھ کھالیا جاتا پھر چھولے والے سے چھولے لے کراس کے اوپر چاول ڈالوا کر کام چل جاتا تھا۔ کھانے کا صرف ایک ہی مشہور ہوٹل تھا۔لاڑی اڈہ پر غلام محمد ملتانی کا مشہور ’’ملتانی ہوٹل‘‘ جو عین اس جگہ پر تھا جہاں سے چند لاریاں ملتان، شجاع آباد کے لئے چلتی تھیں۔ وہ آخری لاری جو رات گئے جلال پور پہنچتی تھی اس کو اگلے دن نماز فجر کے وقت جلال پور سے ملتان کیلئے روانہ ہونا ہوتا تھا اس کی نشستیں ریزرو کرانے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ ہمارے خاندان کا احترام کرنے والے افراد رات کو ہی اس کی چند سیٹیں بس سے نکال کر الگ سے باہر رکھ لیا کرتے تھے۔ نہ سیٹ ہوگی نہ اس کے اوپر کوئی بیٹھ سکے گا۔ ہمارے خاندان کے افراد جب اس پر بیٹھنے کے لئے آئیں تو یہ اکھاڑی گئی نشستیں واپس اپنی جگہ پر رکھی جائیں گی یہ تھا تو امتیازی سلوک لیکن اس زمانے میں سیٹوں کی بکنگ کا یہی رواج تھا ہم صبح کی لاری پر ہی اکثر ملتان جایا کرتے۔ اس کو چلانے کیلئے ایک بہت بڑا راڈ بس کے انجن کو متحرک کرنے کیلئے ایک مزدور زور سے گھمایا کرتاتھا۔ بس کے بونٹ میں ایک سوراخ ہوتا جہاں یہ لوہے کا ڈنڈا گھماتے گھماتے بالآخر لاری کی’’ گڑر گڑر گڑر‘‘ کی آواز ’’گڑاں گڑاں گڑاں‘‘ میں تبدیل اور پھر ہلکے سے زلزلے جیسے اثرات ظاہر ہوتے اور یوں بس روانہ ہوجاتی۔ غلام محمد ملتانی کے اس اکلوتے ہوٹل میں دودھ دہی ربڑی ملائی، سوہن حلوہ یا گاجر کا حلوہ، چائے، رسک کیک، زردہ پلائو، بڑے یا چھوٹے گوشت کا سالن اور تندور کی خستہ روٹیاں سبھی کچھ ایک چھت کے نیچے دستیاب تھا۔ رمضان المبارک میں ہوٹل کے باہر بڑے بڑے پردے لٹکا دیئے جاتے جو اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ خاموشی سے اندر آجایئے، کھانے پینے کا سارا انتظام حسب معمول چل رہا ہے ویسے تو یہ سہولت مسافروں کے لئے تھی لیکن مقامی افراد کیلئے اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ملتان جانا ایک بہت بڑا سفر سمجھا جاتا تھا اور بہاول پورکے لئے تو اتنا لمبا چکر لگا کر سفر اختیار کرنا پڑتا تھا کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کو مل کر اور باقاعدہ بتا کر جاتے تھے کہ ریاست بہاول پور جارہا ہوں  خیریت سے واپسی کیلئے دعا کیجئے گا۔ اگرچہ آمدورفت کے ذرائع میں سہولیات پیدا ہوگئی ہیں۔ اس طرح کی ٹرانسپورٹ دستیابی اس زمانے میں چند ہی لوگوں کے پاس موٹر گاڑیاں تھیں اب اس کی بہتات نظرآتی ہے۔ ہر دس پندرہ منٹ بعد بسیں، منی ویگنیں، منی کوچز جگہ جگہ دستیاب ہیں لیکن جلال پور پیروالا کا وہ حسن وہ خوبصورتی وہ صفائی ستھرائی وہ مٹی کی مہک غائب ہے جس سے ہمارے بچپن کی یادوں کے چراغ جگمگاتے ہیں وہ صبح صبح گلیوں میں جھاڑو دینے والے نظر آتے جیسے جیسے خاکروب جھاڑو دے کر فارغ ہوجاتا ماشکی چمڑے کی مشک لیکر آجاتے اور گلیوں میں پانی کا ہلکا ہلکا چھڑکائو کرتے جاتے جس سے مٹی کی ایسی ایسی سوندھی خوشبو اٹھتی جس سے صبح کا آغاز تازگی اور فرحت سے ہوتا اس کے بعد گدھے والا آتا جسے ’’گادھی‘‘ کہا جاتا اس کے فرائض کار میں یہ شامل تھا کہ وہ شہر کی نالیوں میں ایک لمبی سی ’’ڈانگ‘‘ سے صفائی کرتا جاتا اور وہ تمام اشیاء جو نالیوں میں پانی کی روانی کو روک سکتی تھیں انہیں ایک بیلچہ نما چیز سے اٹھا اٹھا کر اپنے گدھے کے اوپر لدے ہوئے بورے میں ڈالتا جاتا تھا۔ لیجئے علی الصباح ہی شہر کی مکمل صفائی ہوگئی، کہیں گندگی اور غلاظت کا ڈھیر نظر نہیں آتا تھا۔ لوگ خوش و خرم ہنستے مسکراتے ایک دوسرے کو مسکراہٹوں کی سوغات دیتے اور سلام کرتے اپنے اپنے کام کی طرف روانہ ہوجاتے سکول کی طرف جانے والے بچے اور بچیاں مختصر سا بستہ تھامے اور اپنی اپنی تختیاں ہاتھوں میں پکڑے مردانہ، زنانہ بوائز اور گرلز سکولز کی طرف قطار اندر قطار جارہے ہوتے سب کی ایک ہی یونیفارم ہوتی، ایک ہی سب کا سلیبس ہوتا، ایک ہی نظام تعلیم تھا۔ پاکستان کو بنے ہوئے چونکہ پندرہ بیس سال ہوئے تھے اس لئے وہ فی الحقیقت ’’نیا پاکستان‘‘ تھا اصلی ’’نیا پاکستان‘‘ تھا۔ جس کے دو حصے تھے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، اسی نظام تعلیم سے پڑھ کر ایک جیسے سکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھکر جج، وکیل، جنرلز، سیاسی کلرک اور کمشنر سب ہی تعلیم یافتہ ہوئے تھے۔ جلال پور پیروالا کی شامیں بڑی سہانی ہوتی تھیں وہ اب ایک بھولی بسری ہوئی داستان لگتی ہے۔ ابھی شہر میں بجلی یعنی ’’الیکٹرک سٹی‘‘ نہیں آئی تھی لہذا ہر گلی کے ایک مخصوص مقام پر لکڑی سے بنایا ہوا ایک بلند طانچہ ہوتا تھا جہاں بڑے سائز کا قندیل نما چراغ جلایا جاتا تھا۔ سرشام ایک کارندہ ایک ہاتھ میں سیڑھی پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں تیل کی کپی تھامے اس طانچے کے قریب آتا، سیڑھی ساتھ لگاتا لیمپ کے شیشے کو کپڑے سے خوب رگڑ کر صاف کرتا پھر تیل کی کپی سے تیل نکال کر لیمپ کے اندر ڈالتا اور ماچس سلگا کر ایک چراغ کو روشن کرکے گویا شام ہونے کے آگاز کا پیغام دیتا یہ منظر دیکھنا ایک حسین تجربہ ہوتا تھا جس کا سرشام انتظار کیا جاتا۔ مغرب کے بعد سارے گھر والے ایک بڑی سی ایگھینٹی کے پاس بیٹھ کر گرم گرم روٹیوں کے ساتھ شوربے والا سالن یا موسم کے مطابق انڈوں کا حلوہ یا ’’گجریلا‘‘ (گاجر حلوہ) کھاتے۔ عشاء کے بعد کبھی قریبی گلی میں بچے کھیلنے کے لئے نکل جاتے جہاں رات کو بچے اور بچیاں اور اسمیں ہر عمر لے لڑکے لڑکیاں شامل ہوتیں اس طرح بے خوف و خطر ہوکر کھیلتے تھے کہ نہ ان کو کسی قسم کا ڈر ہوتا نہ ہی ان ک والدین کو کوئی فکر اور اندیشہ ہوتا تھا۔ اب وہ جلال پور خواب و خیال ہوا، نہ وہ مٹی کی سوندھی خوشبو رہی نہ ہی وہ صبح کو شہر کی گلیوں کی صفائی کرنے والے اس میں جھاڑو دینے والے اس پر چھڑکائو کرنے والے رہے۔ شاید کاغذوں میں وہ موجود ہوں گے اور تنخواہیں بھی شہر کی میونسپل کمیٹی سے لے رہے ہوں گے لیکن شاید کام کسی کے ذاتی ملازم کے طور پرکرتے ہوں گے۔ نہ وہ شہر کی ہر گلی کے ہر نکڑ ہر موڑ پر روشن چراغ رہے اور نہ ہی راتوں کو بے خوف خطر کھیلنے والے بچے اور بچیاں، اب یہ سب کچھ ایک دھندسا خواب سا لگتا ہے اب ہر طرف ابلتے ہوئے گٹر ہیں، نالیوں سے بہہ بہہ کربہنے والا گندا اور غلیظ پانی ہے جس نے شہر کی گلیوں کو مزید گندا اور غلیظ بنادیا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں، تجاوزات ہیں، بے ڈھنگی گلیاں اور عمارتیں ہیں۔ چند ایک اچھے گھر بھی ہیں تو کیا ہوا۔ باہر گلیوں میں تو پرانا چلال پور مرچکا ہے، پتہ نہیں ’’نیا پاکستان‘‘ کا حقیقی منظر واپس کب آئے گا۔
تازہ ترین