• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر نے تو ”رخش عمر“ یعنی عمر کے گھوڑے کے بارے میں کہا تھا کہ نہ اس کی باگ ہاتھ میں ہوتی ہے اور نہ پاؤں رکاب میں، بس وہ اپنی مرضی سے اپنے ہی زور اور اپنے ہی رخ پر بگٹٹ دوڑے چلا جاتا ہے لیکن وطن عزیز کا احوال بھی کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ریاست کے سارے اجزائے ترکیبی اپنا توازن کھو کر منتشر ہوتے چلے جا رہے ہیں، آئین لایعنی موشگافیوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے، قانون اپنا بھرم کھو چکا ہے، دہشت بے لگام ہو چکی ہے، لاقانونیت کا راج ہے، انسانی جان ومال اپنی قدروقیمت گنوا چکے ہیں۔ مختلف جتھے مختلف اہداف کے لئے اسلحہ کے زور پر اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر بنا چکے ہیں۔ رینجرز کی حیثیت ایک علامتی دھمکی تک محدود ہو گئی ہے اور پولیس احساس شکست سے نڈھال، ذہنی اور عملی طور پر ہتھیار ڈال چکی ہے۔
صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں اور قانون شکنی کا سدباب کرنے والی انتظامیہ نے سب کچھ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ دہشت گردی یا قتل وغارت گری کی کوئی واردات نہ ہوتی ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ ہمارے معمولات کا حصہ بن چکا ہے، سو نہ ہمارے دلوں کے اندر کوئی موج اضطراب انگڑائی لیتی ہے نہ ذہنوں میں کوئی بھونچال آتا ہے نہ دن کے سکون میں کوئی خلل پڑتا ہے اور نہ رات کی نیند بے کلی کا شکار ہوتی ہے۔ اس عہد خوں رنگ میں کراچی اور پشاور میں پولیو ٹیموں پر حملہ اور ان حملوں میں پانچ خواتین سمیت چھ انسانوں کی ہلاکت بھی روزمرہ کے معمولات کی ایک عمومی کروٹ کی طرح بھلا دی جائے گی۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خاک وخون میں لتھڑ جانے والی یہ خواتین غریب یا زیریں متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں جو اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کیلئے نوکریاں کر رہی تھیں ان میں سے کوئی بھی ملالہ نہ تھی جو وار آن ٹیرر کے حوالے سے امریکی موٴقف کی ہمنوائی میں انٹرنیٹ پر کہانیاں لکھتی ہو اور جس سے امریکہ اور یورپ واقف ہوں۔ سو ان کے گھروں میں دو چار دن صف ماتم بچھے گی اور پھر سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔
المیہ یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک پوری سنجیدگی اور کامل سیاسی عزم کے ساتھ کوشش ہی نہیں کی گئی کہ دہشت گردی کو لگام ڈالی جائے۔ یہاں مختلف النوع ایجنڈوں کے علمبردار کتنے ہی گروہ دیدہ دلیری کے ساتھ ریاستی عملداری کو للکار رہے ہیں لیکن ریاستی نظام کے کرتا دھرتا اپنے اپنے اہداف اور اپنی اپنی ترجیحات میں مگن،گردوپیش سے بے نیاز اپنی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ پرویز مشرف نے اس شجر خبیثہ کا بیج بویا۔ اسے اپنا اقتدار عزیز تھا سو وہ قصر سفید میں مقیم شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو امریکی عزائم کی بھٹی میں جھونکتا چلا گیا۔ سارا انتظامی ڈھانچہ ساری نام نہاد پارلیمینٹ سارا حکومتی بندوبست تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں، یہاں تک کہ فوج کو بھی کروسیڈ کی آبیاری پر لگا دیا گیا۔ اسباب ومحرکات کی نزاکتوں سے قطع نظر، امریکہ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر، افغانستان کے عوام کے خلاف لڑنا، کسی طور پاکستان کے مفاد میں نہ تھا لیکن قومی مفاد کو غیرملکی مفاد کے تابع کردیا گیا کیونکہ سیاہ وسفید کے مالک آمر وقت کا مفاد اسی میں تھا۔ ستم یہ ہوا کہ جمہوری نظام کی بساط بچھی تو لوگوں نے دیکھا کہ مفاد کی وہی نکیل، این آر او کے نام پر، اس کی ناک میں بھی پڑی ہے۔ بھول جائیے کہ مشرف کی خودساختہ پارلیمینٹ کا کردار کیا رہا۔ فراموش کر دیجئے کہ قبائے جمہوریت میں ملبوس اس پارلیمینٹ نے کس کس عنوان سے کیسی کیسی جرأت آفریں قراردادیں منظور کیں، نظرانداز کر دیجئے کہ گزشتہ چار برس کے دوران عمائدین حکومت وریاست کی کتنی پُرشکوہ کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور انہوں نے قومی غیرت وحمیت کے امین کیسے کیسے تاریخ ساز اعلامیے جاری کئے۔ حقیقت اولیٰ صرف اس قدر ہے کہ گزشہ گیارہ برس سے ہم پوری استقامت اور زبردست جذبہ عقیدت کے ساتھ مشرف کے نقوشِ پا کر چراغِ راہ بنائے ہوئے عین انہی راستوں پر چل رہے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست کمزور ہو رہی ہے۔
نائن الیون کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی نے جب انتظامیہ کو غیرموٴثر اور حکومت کو لاتعلق پایا تو وہ آکاش بیل کی طرح پھیلتی چلی گئی اس کی دیکھا دیکھی اسلحے کے زور پر اپنی فرماں روائی قائم کرنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے والے گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ بلوچستان میں ایک طوفان اٹھا جس کا عنوان ”وار آن ٹیرر“ سے ذرا مختلف ہے کراچی میں اپنی اپنی سیاسی جاگیروں کے محافظ اسلحہ لہراتے ہوئے باہر نکل آئے۔ لینڈ اور بھتہ مافیاز کی بن آئی۔ فرقہ واریت نے اس ماحول کو اپنے مقاصد کے لئے شاداب جانا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کا وہ کھیل شروع ہوا جو رکنے میں نہیں آرہا۔
وفاقی حکومت بے نیازی کی چادر تانے گہری نیند سو رہی ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں براہ راست پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ دونوں صوبے آتش کدے بنے ہوئے ہیں خیبر پختونخوا پر بھی پی پی کی اتحادی جماعت حکمران ہے۔ وہاں بھی جوئے خون تھمنے میں نہیں آرہی۔ گزشتہ کچھ دنوں سے تو یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے دہشت گرد واقعی صوبے پر مسلط ہو گئے ہیں۔
کراچی اور پشاور میں پولیو ٹیموں پر حملے اور معصوم کارکنوں کی ہلاکت بہت بڑا المیہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے انسداد پولیو کے مراکز بند کردیئے ہیں۔ سندھ بھر میں پولیو مہم روک دی گئی ہے اور شاید خیبر پختونخوا میں بھی عافیت کی ہی راہ اختیار کی جائے۔ اس صورتحال کے معنی کیا ہیں؟ پہلا یہ کہ حکومتیں کلی طور پر مفلوج ہو چکی ہیں دوسرا یہ کہ اپنے مخصوص ایجنڈوں کے لئے متحرک قانون شکن عناصر اتنے قوی ہو گئے ہیں کہ وہ جب چاہیں انتظامیہ کو یرغمال بنا کے اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔
انتخابات سے عین پہلے دہشت گردی کے عفریت کی یہ ہلاکت آفریں انگڑائی پیغام دے رہی ہے کہ جمہوری عمل بھی شدید خطرے سے دوچار ہے اگر پونے پانچ برس سے سیاہ وسفید کی مالک، مضبوط سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بے بس ہو گئی ہیں تو ساٹھ یا نوّے دنوں کے لئے آنے والا ڈھلمل سا نگران بندوبست، بدامنی اور لاقانونیت کے اس خوں آشام عفریت کو کیسے قابو کرے گا؟ فخرو بھائی کا الیکشن کمیشن کم وبیش دو کروڑ ہلاکت آفریں ہتھیاروں اور منہ زور عناصر کا کیا کر پائے گا؟ کیا آگ، بارود اور خون کے کھیل کی تازہ انگڑائی کا مقصد، شعوری یا غیرشعوری طور پر شیخ الاسلام کے اس نظریئے کو تقویت دینا ہے کہ ”سیاست نہیں ریاست؟“ یہ سوال تیر نیم کش کی طرح بہت سے پاکستانیوں کے دل میں ترازو ہو چکا ہے لیکن ایسا تیر نیم کش جس میں مرزا غالب والی خلش نہیں، بس بلا کا درد ہے اور غضب کی ٹیسیں۔
تازہ ترین