• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اِس عنوان سے میں نے اگست تا دسمبر 1966ء ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ میں ایک سلسلہٴ مضمون لکھا تھا جو آج بھی بعض حلقوں میں موضوعِ گفتگو بنا رہتا ہے  کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ صاحب ِ مضمون مشرقی پاکستان کے حوالے سے قوم کو خوش فہمیوں کے جام پلاتے رہے جبکہ وہاں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ مجھے گمان گزرتا ہے کہ بیشتر حضرات پورا سلسلہٴ مضامین پڑھے بغیر صرف عنوان پر طبع آزمائی فرماتے اور ناحق مجھ پر حقائق چھپانے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ اُن کی آگاہی کے لیے ”محبت کا زمزم بہہ رہا ہے“ کے سلسلہٴ مضامین کے تاریخی پس منظر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان کے اندر عدم تحفظ کا شدید احساس 1965ء کی سترہ روز جنگ میں پیدا ہوا جب اُسے چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جنگ بندی پر وہاں کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا جبکہ مغربی پاکستان میں تمام اپوزیشن جماعتیں اعلانِ تاشقند کے خلاف تھیں اور اُنہوں نے ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی کی وسیع و عریض کوٹھی میں 10فروری 1966ء کو قومی کانفرنس منعقد کی۔ اِس میں عوامی لیگ کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن آئے اور اُنہوں نے اعلانِ تاشقند کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کے بجائے چھ نکات پیش کر دیے۔ نوابزادہ نصرالله خاں جو عوامی لیگ کے صدر تھے  اُنہوں نے پوچھا کہ عوامی لیگ سے باقاعدہ منظوری لیے بغیر اِن چھ نکات کی سیاسی حیثیت کیا ہے  تو جواب ملا کہ یہ مشرقی پاکستان کے عوام کی حقیقی آواز ہیں۔
لاہور کی قومی کانفرنس میں پیش کیے جانے والے چھ نکات کو مشرقی پاکستان کے اخبارات میں خاطر خواہ کوریج ملی  تاہم اُن کے خلاف تنقیدی مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔ میں نے زمینی حقائق معلوم کرنے کے لیے جون کے اوائل میں مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اور کچھ دوستوں کے ہمراہ چٹاگانگ  کومیلا  راجشاہی  دیناج پور  کھلنا اور جیسور میں وکلاء  طلبہ اور سیاسی کارکنوں سے چھ نکات پر تبادلہٴ خیال کیا۔ بیشتر سنجیدہ حلقے ایک ہی بات کہتے رہے کہ مشرقی پاکستان کو منصفانہ سیاسی اور معاشی حقوق دیے جائیں اور صوبائی خود مختاری اور پارلیمانی نظام کا اہتمام کیا جائے تو عوام شیخ صاحب کی جذباتی تقریروں کے جھانسے میں نہیں آئیں گے اور پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہیں گے۔ شیخ صاحب کے ایک ہم جماعت نے اُن کے بارے میں ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا جس کی بعد میں اور لوگوں نے بھی تصدیق کی۔ یہ 1938ء کے اوائل کا واقعہ تھا کہ شیخ صاحب کے آبائی شہر ضلع فرید پور میں مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ اتفاق سے دونوں دھڑوں نے بیک وقت ایک کھلے میدان میں الگ الگ جلسہٴ عام کے انتظامات کیے۔ ایک جلسے کی صدارت مولوی تمیز الدین خاں اور دوسرے کی جناب حسین شہید سہروردی کر رہے تھے۔ مولوی تمیز الدین خاں کے جلسے میں بہت لوگ آئے۔ اتنے میں ایک لمبا ترنگا نوجوان کندھے پر لٹھ رکھے جلسہ گاہ میں داخل ہوا اور اُس نے مجمع پر بڑی بے دردی سے لٹھ برسانا شروع کر دیے۔ لوگ جان بچانے کے لیے دوسری جلسہ گاہ کی طرف دوڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے سہروردی صاحب کے جلسے میں بہت رونق پیدا ہو گئی۔ اسٹیج پر بیٹھے سہروردی صاحب یہ پورا منظر دیکھ رہے تھے۔ اُنہوں نے اشارے سے شیخ صاحب کو اپنے پاس بلایا  نام پوچھا  شاباش دی اور کلکتہ آنے کے لیے کہا۔ یہی ملاقات آگے چل کر ایک مضبوط سیاسی رشتے میں ڈھل گئی اور جناب سہروردی کا ایک چیلا فسطائی رجحانات کے ساتھ ایک ”سیاسی قائد“ بنتا چلا گیا۔
لاہور سے واپس جاتے ہی شیخ صاحب نے عوامی لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جس میں صرف دس پندرہ مقربین مدعو کیے گئے اور نوابزادہ نصرالله خاں کو اِس اجلاس کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ پارٹی کے قواعد و ضوابط پامال کرتے ہوئے جنرل کونسل نے شیخ مجیب الرحمن کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ اِس طرح عوامی لیگ قومی جماعت کے دائرے سے نکل کر ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئی جس نے بنگلہ قومیت کو اپنی سیاست کا محور بنا لیا۔ اِس کے نتیجے میں دونوں بازووٴں کے درمیان سیاسی فاصلے بڑھتے گئے  مگر مشرقی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت کس قدر احساسِ محرومی کے باوجود پاکستان کے ساتھ جڑی رہی اور اِس کی نفسیات میں یہ احساس جاگزیں تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔
ایک ماہ قیام کے دوران مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ قوم کے سامنے چھ نکات کا مختلف پہلووٴں سے جائزہ لینا، مشرقی پاکستان کے حقیقی مسائل اور اُن کے حل پر تفصیلی گفتگو کرنا اور افسردہ دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کیے رکھنا ازبس ضروری ہو گیا ہے کہ ایوب خاں کی آمریت سے قومی وجود زخم زخم تھا۔ میں نے اِسی لیے پانچ قسطوں میں یہ حقیقت اُجاگر کرنے کی حقیر سی کوشش کی کہ صدارتی نظام کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے عوام بجا طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ مغربی پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے غلام اور یکسر بے اختیار ہیں جبکہ اسمبلی  کابینہ اور حکومت کے ادارے ربڑ اسٹمپ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اِن پانچ اقساط میں یہ تاریخی حقیقت پیش کی گئی تھی کہ چھ نکات اُس تصورِ پاکستان پر کاری ضرب لگاتے ہیں جو مئی 1946ء کے دہلی کے اُس اجلاس جس میں قرارداد کے ذریعے یہ طے پایا تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر پورے ہندوستان سے منتخب نمائندوں کا قائداعظم کی زیرِ صدارت منعقد ہوا تھا۔ اِن میں حالات کو سدھارنے  دونوں بازووٴں کو قریب تر لانے اور عوام کو اقتدار میں موثر طور پر شامل کرنے کی تجاویز دی گئیں تھیں۔ دسمبر 1966ء کے آخر تک حکومت کی بے بصیرتی اور عاقبت نااندیشی سے جنم لینے والی چھوٹی بڑی سیاسی شورشوں کے باوجود اچھے امکانات کے آثار پائے جاتے تھے  کیونکہ مغربی پاکستان میں بھی صوبائی خود مختاری  حقِ بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کے حق میں وسیع بنیادوں پر تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی اور مشرقی پاکستان کے مسائل پر خصوصی توجہ دینے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔
شیخ مجیب الرحمن نے سات جون کو اہلِ ڈھاکہ سے چھ نکات کے حق میں دو روز پہلے ہڑتال کی کال دی۔ اِس کا پہلے روز کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا  دوسرے روز شیخ صاحب گرفتار کر لیے گئے جس کی خبر پھیلتے ہی لوگ بازاروں اور گلیوں میں جمع ہونے لگے اور 7جون کو ڈھاکے میں بھرپور ہڑتال ہوئی۔ لوگ گورنر منعم خاں اور ایوب خاں کے خلاف پُرجوش نعرے لگاتے رہے۔ دس روز بعد پورے صوبے میں شیخ مجیب الرحمن کی طرف سے ہڑتال کی اپیل کی گئی جس کا عوام کی طرف سے جواب کچھ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ اِس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ابھی تک صرف ڈھاکہ مجیب کے سحر میں گرفتار ہوا تھا۔ بدقسمتی سے صدر ایوب خاں نے چھ نکات کا مدلل جواب دینے اور مشرقی پاکستان کے عوام کو گورنر منعم خاں کے عذاب سے نجات دلانے کے بجائے اپنی ماہانہ نشری تقریر میں کہا کہ ہم علیحدگی پسندوں کے خلاف اسلحے کی زبان استعمال کرنے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ وریں اثنا وزیرِ خارجہ مسٹر بھٹو نے عوامی لیگ کی قیادت کو چھ نکات پر مناظرے کا چیلنج دے دیا جسے سیکرٹری جنرل تاج الدین نے قبول کر لیا  مگر تاریخیں بار بار تبدیل کرنے کے بعد بھی وہ ڈھاکہ نہیں گئے۔ اِس طرزِعمل نے مشرقی پاکستان کے شہریوں میں یہ احساس اُبھارنا شروع کر دیا کہ چونکہ مغربی پاکستان کے زیادہ تر لیڈر چھ نکات کے مخالف ہیں  اِس لیے وہی ہمارے حق میں بہتر ہوں گے۔ یوں محبت کے زمزم میں بے اعتمادی کی آمیزش بتدریج شامل ہوتی گئی جو پانچ سال بعد ایک خونیں انجام کی شکل اختیار کر گئی۔(جاری ہے)
تازہ ترین