• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیوزی لینڈ سے شرمناک شکست، ناقص حکمت عملی کا نتیجہ

پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہی کہانی اور وہی مرض،نیوزی لینڈ کے خلاف تیسراو فیصلہ کن ٹیسٹ پہلے میچ کا ری پلے ثابت ہوا، نیوز ی لینڈ نے 49 سال بعد پاکستان کی ہوم سیریز اپنے نام کرلی،آدھی صدی کے بعد رونما ہونے والا یہ کارنامہ اس لیئے بھی غیر معمولی ہے کہ برصغیر ایشیا میں بلیک کیپس کی فتوحات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے،بھارت میں تاحال کامیابی خواب ہے، قومی ٹیم2018 میں کارکردگی کچھ یوں ہے ہوم سیریز میں آسٹریلیا سے 0-1 سے جیتے اور نیوزی لینڈ سے 1-2 سے ہارے ،گویا 5 میچوں میں سے 2جیتے اور 2 ہارے۔پاکستان کے لئے نیوزی لینڈ میں سیریز جیتنا مشکل ہوتا، مگر گھر میں نیوزی لینڈ جیسی ٹیم سے ہارنا عجب بات ہے اور وہ بھی ایسی سیریز کہ جس میں اسپنر یاسر شاہ 29 وکٹیں اپنے نام کریں،200 ٹیسٹ وکٹ کا تیز ترین 82 سالہ ریکارڈ اپنے نام کریں تو اسکے باوجود ہارجانا شرم ناک ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتی،بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والے کوچز جانے کیا کام کرتے ہیں،ابوظبی ٹیسٹ میں پاکستان نے بڑی برتری کا موقع گنوا یا،کیونکہ حکمت عملی نہیں تھی ،آخری دن 79 اوورز میں 280 رنز کے لئے بیٹنگ آرڈر میں ضروری تبدیلی کیوں نہیں کی گئی،پلاننگ کا فقدان،درست فیصلوں کی کمی اور کمبی نیشن میں بنیادی کمزوری کیوں دور نہیں ہوتی،یہ کسی ایک کی من مانی ہے یا سب کی نااہلی اور یا پھر سرفراز احمد کی ٹیسٹ فارمیٹ سے کپتانی کے خاتمے کی خاموش کہانی۔ٹیم میں میچ ونر پلیئرز نہیں،ذمہ داری پڑنے پر اظہر علی ناکام ہی ثابت ہوتے ہیں، بابر اعظم نے فیصلہ کن ٹیسٹ میں ففٹی بنانے کے باوجود 2 کھلاڑیوں کے باقی ہوتے ہوئے بھی غلط شاٹس کھیلے۔گویا بیٹنگ لائن میں فنش کرنے اورآگے بڑھ کر ذمہ داری لینے والا کوئی بھی نہیں ،یہ خود غرضانہ اننگز ہیں،یہی حال بولنگ لائن کا ہے،رائٹ ہینڈ فاسٹ بولرز کی لمبی تاریخ رکھنے والی ٹیم مسلسل بناکسی رائٹ ہینڈ فاسٹ بولر کے کھیل رہی ہے، جنوبی افریقا کے دورہ کے لئے اعلان کردہٹیم میں بائونسی وکٹوں پر رائٹ ہینڈز میں میڈیم پیسرزمحمد عباس ،فہیم اشرف اور حسن علیبولنگ کریں گے اور انکے لئے لیفٹ ہینڈ ڈ واپسی کرنے والے محمد عامر اور شاہین آفریدی ہونگے،،بیٹنگ میں اوپنرز دونوں لیفٹ ہینڈڈ ہونگے، شاداب خان یا اعتماد سے کھوئے محمد عامر کتنے مفید ہونگے،یو اے ای میں نتیجے کا انتظار ہوتا ہے تو جنوبی افریقا میں سامنےلکھادکھائی دیتاہے۔قائد اعظم ٹرافی،اے سیریز، انڈر19 کرکٹ شاید وقت گزاری کے لئے ہوتی ہے کہ اسکے ٹاپ پرفارمرز گنتی میں نہیں آتے ۔22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کوئی ایک رائٹ ہینڈ فاسٹ بولر اور کوئی ایک ذمہ داری لینے والا بیٹسمین نہیں مل رہا، سلیکٹرز کھلاڑیوں کی تلاش کیلئے اپنی ذمے داری درست انداز میں نہیں نبھا رہے ہیں، یہ سوال اب زبان زد عام ہوتا جارہا ہے، ٹیم کے انتخاب پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین