• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دینی مدارس اور مساجد پراوگرا کا ”حملہ“ روزنِ دیوار سے

کبھی ہم لوگوں کو منبر و محراب سے شکایت پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ ہم سے شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری شکایات کی فہرست بہت طویل ہے بلکہ ایک طرح کی جارج شیٹ ہے جو ہم آئے دن ان کے ہاتھ میں تھماتے رہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ دینی مدرسوں کا نصاب ذہنی کشادگی کی بجائے تنگ نظروں کے لشکر تیار کرتا رہتا ہے، جو اسلام ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے اس میں سارا زور حقوق اللہ پر ہے اور حقوق العباد میں ذکر بس برسبیل تذکرہ ہی ہوتا ہے۔ اسلام میں اجتہاد کا حکم ہے لیکن ہمارے وارثان منبرو محراب لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ زمانہ کتنی ہی کروٹیں لے چکا ہے لیکن اس کے نئے تقاضوں کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا۔ فرقہ پرستی ایک ہولناک شکل اختیار کرچکی ہے اور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بنتی جارہی ہے۔ اپنی مرضی کا اسلام بنوکِ شمشیر پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لئے آئے روز معصوم جانیں لی جاتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ تخریبی اور غیر اسلامی ذہن مدرسوں ہی میں تیار کیا جاتا ہے۔ مسجدوں کی امامت اور دینی مدرسے خدمت دین کا نہیں اپنے اپنے فرقوں کی”وسعت“ اور روزگار کے حصول کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایک دوسرے کی مسجدوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور یہ وباء اب یورپ اور امریکہ کی مسجدوں تک پھیل چکی ہے۔ دینی مدارس سے ہر سال لاکھوں”علماء“ تیار ہوتے ہیں اور یوں ان سب کو مسجدوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک ایک محلے میں چھ چھ مسجدیں بنتی چلی جارہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مگر منبر و محراب والے ہم سے ،ہم سے بھی زیادہ شاکی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ نے مولوی کو معاشرے میں مقام کیا دیا ہے۔اس کے باوجود وہ روکھی سوکھی کھاتا ہے اور دن میں پانچ مرتبہ ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ ہمارے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتا ہے، ہماری ہر خوشی اور ہر غمی میں شریک ہوتا ہے، دینی طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک بہت بڑی تعداد اسلام میں جبر کی قائل نہیں، وہ ان دنوں اسلام کے نام پر ہونے والے قتل و غارت گری اور دہشتگردی کی کھل کر مذمت کرچکی ہے چنانچہ اس کی پاداش میں کئی علمائے حق کو شہید بھی کیا جاچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غریب و نادار بچوں کے لئے مفت دینی اور دنیاوی تعلیم بمعہ لباس ،خوراک اور رہائش یہ دینی مدرسے ہی مہیا کررہے ہیں اور یوں ان کی ان خدمات کا مقابلہ کوئی بڑی سے بڑی سے این جی او بھی نہیں کرسکتی۔ یہ خود کو اس الزام سے بری قرار دیتے ہیں کہ دینی مدارس دہشتگرد تیار کررہے ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب دینی مدرسوں میں دین کی تعلیم کے علاوہ ایم اے بھی کرایا جاتا ہے تاکہ انہیں روزگار کے لئے مساجد کا رخ نہ کرنا پڑے۔
تاہم اس کے باوجود کچھ سوال ہیں جو پاکستانی عوام کے ذہنوں میں کلبلاتے رہتے ہیں، جن پر پھر کبھی گفتگو ہوگی، فی الحال تو میں آپ کو قاری حنیف جالندھری صاحب کا ایک خط پڑھانا چاہتا ہوں جو انہوں نے میرے نام لکھا ہے۔ قاری صاحب سے میرے دیرینہ خاندانی مراسم ہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کے خطیب ہیں اور منطق کے ماہر ہیں۔ قاری صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہونے کے علاوہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بہت فعال ناظم اعلیٰ بھی ہیں۔ انہیں شکایت اس حکومتی اقدام کے حوالے سے پیدا ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مدارس پر ناقابل یقین حد تک مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہئے۔ میرے خیال میں اسلام اور پاکستان کے مفاد میں ہے کہ جو دینی مدارس پرامن اور فرقہ پرستی سے پاک ذہن پیدا کررہے ہیں حکومت انہیں اپنا دشمن نہیں دوست سمجھے۔بہرحال ذیل میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری مدظلہ العالیٰ کا مکتوب گرامی درج کیا جارہا ہے مجھے یقین ہے میرے قارئین ان کے موقف سے اتفاق کر یں گے۔
محترم و مکرم جناب عطاء الحق قاسمی صاحب!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ خیر و عافیت سے ہوں گے اور دن رات ملک و ملت کی خدمت اور جہاد بالقلم میں مصروف عمل ہوں گے۔
برسوں سے آپ کے کالم نظر سے گزررہے ہیں بلکہ آپ اور آپ کے خاندان کے ساتھ ہمارا تعلق برسوں پرانا ہے۔ ہمارے جد امجد حضرت مولانا خیر الاامت حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کے ساتھ آپ کے والد گرامی مولانا بہاؤالحق قاسمی کے بڑے گہرے دوستانہ اور برادرانہ مراسم تھے اور آپ بھی ہمیشہ ان مراسم کا خیال رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں آپ سے فون پر گفتگو بھی ہوئی تھی اور عنقریب انشاء اللہ بالمشافہ ملاقات کے لئے بھی حاضری ہوگی۔
اس وقت اس خط کے ذریعے ا ٓپ کی توجہ ایک بہت اہم معاملے کی جانب مبذول کروانا مقصود ہے۔ آپ کے علم میں یہ افسوسناک خبر یقینا آئی ہوگی کہ وفاقی وزارت پٹرولیم اینڈ سوئی گیس حکومت پاکستان کے ذیلی ادارے ”اوگرا“ نے22ستمبر2012ء سے مساجد، مدارس اور دیگر مذہبی و دینی اداروں کو عام گھریلو صارفین کے زمرے سے نکال کر اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر ان دینی اداروں پر ناقابل برداشت معاشی بوجھ ڈال دیا ہے چنانچہ مساجد و دینی مدارس میں گیس کنکشن حاصل کرنے کا خرچہ 3,000روپے سے بڑھا کر 31,000 روپے کردیا ہے یعنی سروس لائن کی رقم1,500روپے سے بڑھا کر5,000روپے اور سیکورٹی کی رقم1,500 روپے سے بڑھا کر26,000روپے کردی ہے یعنی اگر کوئی اپنی کوٹھی یا مکان پر گیس کنکشن لگوائے تو اسے محض 3,000 روپے دینے ہوں گے اور اگر اللہ کے گھر کے لئے گیس کنکشن لیا جائے تو31,000روپے دینے ہوں گے۔ عام گھریلو صارفین کے لئے سوئی گیس کے تین نرخ ہیں یعنی100روپے فی یونٹ،200روپے فی یونٹ اور 500 روپے فی یونٹ لیکن مساجد و مدارس وغیرہ کے لئے ایک ہی نرخ ہے یعنی 500روپے فی یونٹ۔ وہ جتنی بھی گیس استعمال کریں ان کو ساری مقدار پر500روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرنا ہوگی۔ ان دینی اداروں کو سستے نرخوں یعنی 100روپے یونٹ اور 200 روپے فی یونٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ عام گھریلو صارفین کے لئے کم سے کم بل کی رقم تقریبا200روپے ہے اور گزشتہ ماہ تک مساجد و مدارس وغیرہ کے لئے بھی کم سے کم بل کی رقم 200 روپے سے بڑھا کر3,600روپے کردی ہے۔ مساجد میں وضو کے گرم پانی کے لئے تین ماہ یعنی دسمبر، جنوری اور فروری میں سوئی گیس استعمال کی جاتی ہے باقی9ماہ یعنی مارچ سے نومبر تک مساجد میں گیس کا استعمال نہیں ہوتا، چنانچہ ان آٹھ ماہ کے دوران گیس استعمال نہ کرنے کے باوجود 3,600روپے ماہوار کے حساب سے نو ماہ کا کم از کم بل32,400روپے ادا کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ گیس کے استعمال کے حساب سے بھی فی یونٹ پانچ سو روپے مزید ادائیگی بھی کرنی پڑے گی۔
مساجد مدارس کے ساتھ یہ ظالمانہ اور غیر مساویانہ طرز عمل اسلام دشمنی اور ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس مملکت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگوں کی دینی، علمی، روحانی اور اسلامی ضروریات پوری کرنے کے لئے مساجد و مدارس کے جملہ اخراجات اور انتظامات ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی اگر ریاست تمام تر بوجھ اور ذمہ داری اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تو کم از کم بجلی اور گیس کی سہولت تو مفت مہیا کی جاتی لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس ریاست میں دین پر عمل کرنے کو روز بروز مشکل سے مشکل بنایا جارہا ہے جبکہ گناہ کرنا دن بدن آسان سے آسان تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ وہ چیزیں جن کی وجہ سے نسل نو کو بہکنے اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں انہیں سستا کیا جارہا ہے ان تک رسائی آسان ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ ہر آدمی کی پہنچ میں ہیں لیکن وہ دینی مدارس جو اس قوم کے بچوں اور بچیوں کو علموم نبوت سے روشناس کروانے والے ہیں اور وہ مساجد جو ایک مسلمان کی ایمانی اور روحانی زندگی کے لئے از حد ضروری ہیں ان کا انتظام مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس ”ظالمانہ ڈاکے“ پر بھی قلم اور آواز اٹھائیں کیونکہ ایک طرف یہ دینی ،نظریاتی اور فکری اعتبارسے نقب زنی ہے اور دوسری طرف سے معاشی اور مالی طور پر ملک بھر کے تقریباً پچیس ہزار مدارس دینیہ اور لاکھوں مساجد سے گیس بل کی مد میں لوٹی جانے والی رقم کا اگر حساب لگایا جائے تو ماہانہ اربوں روپے حکومتی خزانے میں جائیں گے۔ ویسے بھی اس فیصلے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی لیکن ایسے حالات میں جب چیئرمین نیب چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہوں اور یومیہ15ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کررہے ہوں ایسے میں مساجد و مدارس سے گیس بل کی مد میں اتنی رقم کی وصولی بہت افسوسناک ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ اس حوالے سے ضرور فوری طور پر قلم اور آواز اٹھائیں گے…اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
محتاج دعا، محمد حنیف جالندھری
ممبر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان
ناظم اعلیٰ وفاقی المدارس العربیہ پاکستان
تازہ ترین