• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کو طبی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے، عالمی ادارہ صحت بھی اس حق کو تسلیم کرتا ہے چنانچہ یونیورسل ہیلتھ کوریج نے کچھ عرصہ قبل اس حوالے سے اپنی پہلی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ پیش کی کہ دنیا میں چار سو ملین افراد کو بنیادی طبی سہولیات حاصل نہیں۔ اس سلسلے میں یہ تین مقاصد پیش کئے گئے’’ طبی سہولیات کی فراہمی ہر خاص و عام تک یقینی بنائی جائے، بتدریج ان سہولیات کے معیار کو بہتر کیا جائے اور لوگوں کو مالی مشکلات سے نکالا جائے کہ بعض حکومتوں نے صحت کے لئے فنڈز مختص کرنے کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے بلاشبہ صحت و تعلیم حکومتوں کی ترجیحات میں پوری طرح شامل نہیں رہی، نتیجہ سامنے ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اور نئے اسپتال نہ بنائے جانے پر پرانے اسپتالوں پر دبائو بہت زیادہ ہے۔ دریں صورت پنجاب میں ہیلتھ پالیسی کے ڈرافٹ کی تیاری ایک احسن پیش رفت ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے بقول ہیلتھ کیئر کمیشن کو مکمل طور پر فعال کیا جائے گا، صوبے میں 5نئے اسپتال آئندہ 18ماہ میں بنالیں گے جبکہ تمام اسپتالوں میں ادویہ کی خریداری کے لئے 12ارب روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ مریضوں کو دوائوں کی کمی نہ ہو۔ چلڈرن اسپتال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہاں 1100بیڈز ہیں عملے کی کمی کی وجہ سے یہاں کی استعداد میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ سکیل 1سے 14تک 13800افراد این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہو رہے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ نئے اسپتال میانوالی، اٹک، بہاولنگر، لیہ اور راجن پور جیسے پسماندہ علاقوں میں تعمیر کئے جا رہے ہیں جہاں سے مریضوں کو بسا اوقات لاہور لانا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت کی ہیلتھ پالیسی میں مزید بہتری کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر تحصیل کی سطح تک چھوٹے ہیلتھ یونٹس بنائے جائیں تاکہ بڑے اسپتالوں پر بوجھ بھی نہ پڑے اور عوام کو صحت کی سہولیات بھی ان کے علاقے میں ہی میسر ہوں۔

تازہ ترین