• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان اس وقت نازک صورتحال سے دوچار ہے۔معیشت تباہ ہوچکی ہے، اسکی بحالی کیلئے کرپشن کاخاتمہ کرنا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کرپشن ایک ناسور بن چکی ہے۔ آئے روز میگا اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں مگر اسکے سدباب کیلئے ہونیوالے اقدامات ناکافی ہیں۔ پوری قوم منتظر ہے کہ پاناما کیس میں 436افراد اوردیگر میگاکیسز میں ملوث لوگوں کیخلاف کارروائی کب ہوگی؟۔ ہر سال 10 ارب ڈالر سے زائد منی لانڈرنگ ہورہی ہے جبکہ سالانہ 4320 ارب کی کرپشن بھی ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔جب تک اسکی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا اس وقت تک حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے 10بڑے اداروں کا سالانہ خسارہ324 ارب روپے ہے جس میں پی آئی اے سر فہرست ہے۔کرپٹ اوربدعنوان افراد منافع بخش اداروں کے زوال کی اہم وجہ ہیں۔نیب کو ان بڑے مگرمچھوں پر بھی اپنا شکنجہ سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن نے70برسوں سے ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹا ہے اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔دبئی اور دیگر ممالک میں ہزاروں پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ اشرافیہ پاکستان میں لوٹ مار کرکے اپنے کالے دھن سے دوسرے ممالک میں ایمپائرکھڑی کررہی ہے۔ چوروں، لٹیروں کیخلاف بلاخوف وخطر اور سیاسی اثرورسوخ کے بغیر تمام کرپٹ عناصر کامحاسبہ ناگزیر ہے۔اس تناظر میں نیب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیازاحتساب کرے۔انسداد بدعنوانی کے ادارے محض کاغذی کارروائی میں مصروف ہیں۔ لوگوں کو شک کی بنیاد پر اٹھاکر حبس بے جا میں رکھاجاتا ہے اور بعد میں ان کے خلاف ثبوت ڈھونڈے جاتے ہیں جبکہ اصل مجرمان پر ہاتھ نہیں ڈالاجارہا۔محکمہ اینٹی کرپشن،نیب سمیت تمام ادارے ملک کو کرپٹ عناصر سے پاک کرنے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے میں مکمل طورپر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ملک میں کرپشن کی انتہاہوچکی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کرپٹ عناصر نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وقت کا نا گز یر تقاضاہے کہ سیاستدانوں سمیت سب کا بلا تفریق احتساب کیا جائے۔ سرمایہ داروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا مٹھی بھرٹولہ ملک کے سیاہ وسفید کامالک بنابیٹھاہے،یہ اشرافیہ کاٹولہ ایک دوسرے کااحتساب نہیں کرسکتا۔حکومت میں وہ لوگ شامل ہیں جوماضی میں پرویزمشرف،پیپلزپارٹی،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں،آج وہ دھل کر پاک صاف ہوگئے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی دیکھ کر عوام میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے حکمرانوں کے پاس ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی کیلئے کوئی تعمیری اور ٹھوس ایجنڈا نہیں۔ حکومت کشکول تھامے دنیابھر میں گھوم رہی ہے۔ ملک وقوم پر پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہیں،ملک کابچہ بچہ مقروض ہوچکا ہے۔قرض پر لگنے والے سود کو اداکرنے کیلئے مزیدقرض لینا تشویش ناک امر اور لمحہ فکریہ ہے۔عوام کی بے لوث خدمت کاگن گانے والے شاہانہ پروٹوکول کیساتھ گھوم پھررہے ہیں۔جب تک حکمران حقیقی معنوں میں عوام الناس کی فلاح وبہبود کیلئے اقدامات،کرپشن کایقینی خاتمہ،اللوں تللوں سے نجات،ٹیکس چوری پرقابوپانے اور قرضوں سے اجتناب کرتے ہوئے ملکی وسائل سے بھرپور انداز میں استفادہ نہیں کرتے خوشحالی نہیں آسکتی۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے تین ماہ کے دور اقتدار میں روزمرہ کی اشیاء کے نرخوں میںکئی گنا اضافہ کردیا ہے۔بجلی،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عوام تنگ آچکے ہیں اور دن بدن حکومتی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی کاشکار ہیں۔اگر تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدوں اور دعوئوں کے مطابق قوم کو ریلیف نہ دے سکی تو ملک میں جمہوریت کیلئے خطرات لاحق ہوجائیں گے۔کسی بھی جمہوری نظام میں عوامی فلاح وبہبود کاخیال رکھاجاتا ہے لیکن جب لوگ ہی حکومت سے مایوس ہوجائیں تو پھر غیر جمہوری قوتوں کواقتدار پر مسلط ہونے کاموقع ملتاہے۔ حکومتی وزراء مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بیانات دے رہے ہیںجس سے قوم میں اضطراب پایاجاتاہے۔موجودہ حکمران ماضی میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں مگر اقتدار ملنے کے بعد ان کی کارکردگی شدید مایوس کن ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی معاشی ماہرین پر مبنی ٹیم قوم کوکہیں نظر نہیں آرہی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب چین اور سعودی عرب سے امداد مل گئی ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے کاکیامطلب ہے؟ یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے حکمرانوں کے پاس معاشی وژن نہیں۔مہنگائی میں ہوشربااضافے نے عوام کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی بجائے ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ملک کو ہر طرح کے وسائل سے نوازاہے۔حکومت کو اپنی معاشی پالیسیاں بدلنے کی ضرورت ہے۔ملک میں اس وقت 40فیصد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے حقیقی معنوں میں کام کیاجائے۔ عوام نے تحریک انصاف کوملکی ترقی وخوشحالی کیلئے ووٹ دیئے تھے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھی ماضی کے حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

لاہور سمیت ملک بھر میں جرائم کی وارداتوں میں حالیہ اضافہ تشویش ناک ہے۔عوام کے جان ومال کوتحفظ حاصل نہیں ہے۔دن دہاڑے چوری،ڈاکہ زنی کی وارداتیں ہورہی ہیں جبکہ پولیس اور دیگر امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔حکومت امن وامان کو بہتربنانے کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات کرے۔بدقسمتی سے حکمرانوں کی ساری توجہ من پسند افراد کو تعینات کرنے اور بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرنے پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہے۔ لاقانونیت کی انتہاہوچکی ہے۔ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔تھانہ کلچر میں بنیادی اصلاحات کرکے ہی اس سسٹم کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔محکمہ پولیس سمیت تمام انسداد بدعنوانی کے اداروں کی کارکردگی کو بہتربنایاجائے۔جب تک سسٹم سے کالی بھیڑوں کاصفایا نہیں کرلیاجاتااس وقت تک امن وامان کی صورتحال بہترنہیں ہوگی۔حکومت عوام کو تحفظ کااحساس دلائے اور ان کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیداکیے جائیں تاکہ جرائم کی دنیا کی طرف کوئی راغب نہ ہوسکے۔معاشرتی ناانصافیوں کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان بھی اس دلدل میں دھنستے چلے جا ر ہے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے نہ صرف جرائم کاخاتمہ ہو بلکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال بھی مثالی بن جائے۔ماضی کے حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب نہیں کی جس کی وجہ سے جرائم اور ماورائے قانون قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا اور پولیس مقابلوں کارواج بڑھا۔تحریک انصاف کی نئی حکومت سے عوام یہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ملک میں کرپشن کاخاتمہ کرے گی اورامن وامان کی صورتحال کو بھی بہتربنایاجائے گا۔اب تحریک انصاف کی حکومت کے100دن پورے ہوچکے ہیں لیکن عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف نہیں مل سکا۔تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے تین ماہ قوم کیلئے خاصے بھاری ثابت ہوئے ہیں۔اب دیکھنایہ ہوگاکہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم اپنی کارکردگی میں بہتری کی جانب مائل ہوتی ہے یاپھریہ سلسلہ یونہی چلتارہے گا؟تحریک انصاف کیلئے اب کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔عوام نے اس سے امیدیں لگارکھی ہیں۔اگر چہ نئی حکومت اب تک عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین