• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہفتہ بھر موسم کہر آلود رہا، کہیں بارش برستی رہی، کہیں برف پہاڑوں کو سفیدی بخشتی رہی۔ شمالی علاقوں کے کئی شہر سفید چادر اوڑھتے رہے اور کہیں آسمان سیاہ چھت بنتا رہا، کہیں یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے تھے تو کہیں تیز ہوائیں آبادیوں کو چیرتی ہوئی گزرتی رہیں۔ دسمبر کی طولانی سیاہ راتیں پاکستان کے حسین مستقبل کی خوبصورت تصویروں سے خواب بنتی رہیں۔ رم جھم اور پت جھڑ کا یہ حسین امتزاج بار بار اس احساس کو ڈستا رہا کہ قدرت نے وطن عزیز کو بیشمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ سارے موسم، سارے ذائقے اس مٹی کی گود میں ڈال دیئے ہیں مگر افسوس یہاں راہبر، راہزن بن بیٹھے۔ ہاں اسی ہفتے میں سولہ دسمبر کا وہ منحوس دن بھی گزر گیا جس روز دیس ٹوٹ گیا تھا۔ اس ٹوٹ کے باعث آہوں اور سسکیوں کے ساتھ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی، دل ٹوٹ گئے تھے ایسے جیسے اجاڑ میں کوئی اجنبی لٹ جائے۔ وہ دن ایسا ہی تھا جیسے صف ماتم کے دوران تیز ہوا شام کے سارے چراغ گل کر دے، جیسے آنگن میں سایہ سا بچھ جائے۔
قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں ہم نے کچھ نہیں سیکھا، ہم ایسی قوم ہیں جس کے کوتاہ قد رہنما، نفرتیں بیچتے ہیں، نفرتوں کی اس تجارت میں وطن کی پروا بھی نہیں کرتے۔ زہر اگلتی لکیریں اتنی گہری ہو جاتی ہیں کہ محبت کا نام لینا محال ہو جاتا ہے۔ ہم نے قبیلوں، ذاتوں اور فرقوں کے سوا کیا سیکھا۔ ہم فقط مستقبل کے مقروض معمار پیدا کرنے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچستان ہی کو لے لیجئے، رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا، معدنی دولت سے مالا مال، یہی نہیں پھلوں کے باغات نے وہاں خوبصورتی بکھیر رکھی ہے۔ یہ پھل آمدن کا ذریعہ بھی ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کی اہمیت سے کون انکاری ہو سکتا ہے کہ اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔ سمندری آمدورفت کا راستہ بھی بلوچستان ہے اس قدر حساس صوبے کی حالت یہ ہے کہ وہ معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہے اس پسماندہ صوبے سے نکلنے والی گیس پورے ملک کا ایندھن بنتی رہی۔ پاک افغان اور ایران بارڈر پر واقع نوکنڈی کے مقام سے ستر کلومیٹر دور ضلع چاغی میں ریکوڈک کا وہ علاقہ ہے جہاں اربوں ڈالرز مالیت سونے کے ذخائر ہیں ریکوڈک کا ذخیرہ دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے اسی علاقے میں سینڈک کے مقام پر تانبے کے وسیع ذخائر ہیں۔ دنیا کوئلے کو بلیک گولڈ کہتی ہے اور کوئلے کے بڑے وسیع و عریض ذخائر سرزمین بلوچستان میں ہیں۔ نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہتے ہیں کہ ”اگر اس کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے تو پچاس ہزار میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے اور بجلی پیدا کرنے کا یہ سلسلہ پانچ سو برس تک جاری رکھا جا سکتا ہے“۔ مگر افسوس کوئی سوچتا نہیں یا سوچنا چاہتا ہی ہیں۔ گوادر اور تربت سے مچھلی برآمد کر کے کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے مگر کون ہے جو تیز ہواؤں میں دیا جلائے۔ آج تک کسی نے سوچا ہی نہیں کہ گوادر کی بندرگاہ کس قدر اہم ہے،کوئی بلوچستان کے پھلوں کو بیرونی منڈیوں تک نہ پہنچا سکا، کسی کو فرصت ہی نہ ہوئی کہ وہ منصوبہ بندی کر کے زرمبادلہ کا سامان پیدا کرتا۔ اگر یہ ہو جاتا تو بلوچستان کی مقامی آبادیاں خوشحالی کا لباس پہن لیتیں،غربت اور بے روزگاری نہ ہوتی۔
آج اگر بلوچستان کو حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو احساس کے اس سفر میں بلوچستان کا مسئلہ غربت، بے روزگاری، تعلیم کی کمی اور سرداری نظام نظر آتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کو الٹ پلٹ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سردار ہی بلوچستان کی ترقی میں حائل رہے۔ اگر بلوچستان میں سرداری نظام ختم ہو جاتا تو ترقی کی دوڑ میں یہ صوبہ کہیں آگے ہوتا مگر سرداروں کے راج کو ترقی کہاں راس؟ انہیں تو سرکاری وسائل کا استعمال اپنی منشاء کے تابع چاہئے۔ انہیں اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی حکمرانی چاہئے اور اس حکمرانی کی جاگیر میں پرندہ بھی سردار کی مرضی سے پر مارے۔
دسمبر2012ء اختتام کو چھو رہا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں سرداروں کی عملداری اور طاقت کو دیکھ کر تقسیم ہند سے پیشتر کے راجے اور راجواڑے یاد آجاتے ہیں۔ بلوچی، بروہی اور پشتو بولنے والوں کی اکثریت آج بھی غلام ہے سرداروں کا کام فقط حکمرانی کا حصول اور سرکاری وسائل کا بٹوارہ ہے۔ بھٹو کے عہد میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم ہوئی تو سردار پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس وقت بغاوت کے جواب میں فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ اسی عہد میں اکبر بگٹی کو گورنر بنایا گیا۔ آج بلوچستان میں آزادی یا خود مختاری کے نام پر کام کرنے والی تمام تنظیموں کے سربراہ انہی سرداروں کی اولاد میں سے ہیں، رابطے پتہ نہیں کہاں کہاں ہیں؟ بلوچستان میں سلگتی آگ بھڑک سکتی ہے اگرچہ صدر آصف علی زرداری نے بلوچوں سے معذرت کی ہے، آغاز حقوق بلوچستان کا پیکیج بھی دیا ہے مگر سب کچھ بے نیل مرام۔ روزانہ لاپتہ افراد کا معمہ کھڑا کر کے بلوچستان کے عوام اور افواج پاکستان میں دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ”لاپتہ افراد کی اکثریت افغانستان کی پل چرخی اور دوسری جیلوں میں قید ہیں۔ افغان حکومت نے اعتراف بھی کیا ہے کہ جن جیلوں میں یہ افراد ہیں وہاں افغان حکومت کی عملداری نہیں ہے“۔ فوج یا خفیہ اداروں کا کیا تعلق؟ اب یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان حکومت سے پوچھے کہ یہ افراد ان جیلوں میں کیسے پہنچے؟
ہمارے ہاں ایک رواج ہے صرف یہ کہہ دینا کہ بلوچستان میں چند مٹھی بھر عناصر شرانگیزی کرتے ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں بلکہ ان بیرونی طاقتوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے شرانگیزی کیلئے بلوچستان کو اپنی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ دولت اور پروپیگنڈے کے زور پر حالات کو سنگین بنایا جا رہا ہے وہاں کے حالات اور حکومتی رویہ سنگینی کو تقویت بخشتے ہیں۔ بعض سردار گمراہی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہزارہ قبیلے کے افراد کو چن چن کر قتل کرنا، لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر، عقیدے کی بنیاد پر موت تقسیم کرنا، سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تو اور کیا ہے؟
اب بھی وقت ہے سنبھل جانے کا، بلوچ رہنما اختر مینگل کے چھ نکات پر غور کر لینا چاہئے۔ غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں۔ بلوچستان کی ترقی کا سوچنا چاہئے۔ حکمت عملی سے سرداری نظام کو ختم کر کے وہاں کے حقیقی عوامی نمائندوں کو آگے لایا جائے۔ احساس محرومی کو ختم کر کے پاکستانی ہونے کا احساس دلایا جائے۔ وہاں کے وسائل عوام پر صرف کئے جائیں۔ گمراہی پھیلانے والوں کا راستہ روک کر بلوچ عوام کو احساس دلایا جائے کہ فوج اور دیگر ادارے ان کے دوست اور محافظ ہیں، دشمن نہیں۔ بلوچستان کو قومی وسائل سے ان کا حصہ دیا جائے بلکہ بلوچستان کی خوشحالی کیلئے قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ وہاں روزگار، صنعت اور تعلیم عام کر دی جائے کہ بلوچستان کی ترقی دراصل پاکستان کی ترقی ہے راحت زاہد کا شعر برمحل ہے کہ
ہم تلاطم میں بھی پا لیتے ہیں اکثر راحت
بے ضرر موجوں سے ہم کو نہ ڈرایا جائے
تازہ ترین