• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر آصف علی زرداری فرماتے ہیں: دو بارہ 5 برس ملے تو ملک کو مزید آگے لے جائیں گے،
زرداری کو قوم کی یہ فریاد سنائی نہیں دیتی
نہ گنواؤ تاوک نیم کش، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لٹا دیا
پانچ برسوں میں کتنی شبہائے غم اور ایام الم یوں کٹے کہ جگر دل دماغ شکم کٹ کٹ گئے اب پاتال میں پہنچا کر پھر کس پاتال تک پہنچانے کے کے لئے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں کہ بس مزید پانچ سال کا سوال ہے، کمال ہے بھئی کمال ہے، انسان بھی جب اسفل السا فلین کے منصب پر فائز ہوتا ہے، تو وہ کس درجہ شپر چشم ہو جاتا ہے اور پکار اٹھتا ہے #
مجھے ذرا نہ آئی لاج میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
یہ عہد پنج سالہ تو نگوڑا اتنا جانکاہ ہو گیا کہ سانس آتا نہیں سانس جاتا نہیں، چین آتا نہیں کرب جاتا نہیں۔ صدر گرامی قدر نے جس معصومانہ و بیگانہ انداز میں اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے تو ان کے اندر کوئی کھٹک کوئی شرمساری کی بھنک سنائی تو دی ہو گی مگر وہ بھی کیا کریں کہ
گلا تو گھونٹ دیا ڈالروں کی جھالروں نے
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
پہلے ہی اتنا آگے لے گئے ہیں، کہ اب آگے تو ایک اور زیادہ بھڑکتی دوزخ ہے، اور عوام کے تن پر کپڑا منہ میں لقمہ اور رہنے کو مکان نہیں، اب تو بس ایک ڈھانچہ ہے کسی قبر کا اگلا ہوا، اب کیا اس کا بھی سودا کرنا ہے، بہتر ہے اب صدر آرام کریں، اور گھر کے کام کریں عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے شاید یہ بیان ہاتف غیبی نے دلوایا ہے، عوام یہ بھی دیکھ لیں کہ انہیں کس قدر بدھو بنایا جا رہا ہے کیا وہ تیار ہیں۔
####
سیاستدانوں کی اگلی نسل عام انتخابات کے لئے وارم اپ کر رہی ہے، ظاہر ہے کہ اب پرانے گرگ کوچنگ کے فرائض ادا کریں گے، اور ان کی اولاد بامراد ہی ان کی جگہ نئے شباب نئی مستی اور ہستی کے ساتھ میدان لوٹ مار میں اترے گی، اربوں روپے ہر روز کھائے جا رہے ہیں، کروڑوں ڈالر باہر سے آنے کے بجائے باہر بھجوائے جا رہے ہیں، ایک بازار نخاس گرم ہے، پوچھنے والے لوٹنے والے ہیں اب صرف اوپر پہنچانے والے کی بارگاہ رہ گئی ہے کہ یہ بے چاری دکھوں کی ماری قوم اس کے حضور عرضی گزاریں تاکہ یہ طوفانِ بلا کسی طرح اس پاک وطن سے گزر جائے اور ساری ناپاکیاں ساتھ لے جائے، گویا سیاست بھی ملوکیت ہو گئی جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جمہوریت ہے، اب یہ سیاسی بچے جمہورے سیدھے آنگن میں بھی ٹیڑھا رقص پیش کریں گے، کیا اس ملک میں عوام کے اندر کوئی ذی شعور دیانتدار قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والا باقی نہیں بچا، بھلا ایسا کیونکر ممکن ہے، اصل رکاوٹ دولت کی بے تحاشا فراوانی ہے جو گدھے کو گھوڑا اور گھوڑے کو گدھا بنا سکتی ہے، سیاست اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ کوئی غریب افلاطون بھی ہو ٹکٹ نہیں لے سکتا، عام لوگوں میں بجا طور پر یہ تاثر ہے کہ حکمرانوں نے لوٹ مچا رکھی ہے، قانون، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اس لئے وہ بھی اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے کے لئے اپنی چھوٹی سی دنیا میں ہر طرح کی بے اعتدالی قانون شکنی کو جائز سمجھنے لگے ہیں، گویا یہ حکمران وہ عاشق ہیں عوام کے جو خود تو ”تر“ گئے ہیں، اور ان کے صنم یعنی عوام ڈوب گئے ہیں، ہم صرف حکمرانوں کو ”بہت اچھا“ نہیں کہتے عوام الناس بھی ”ثواب“ کمانے میں پیچھے نہیں، سیاستدان اس ملک کے شہری ہیں۔ انہیں ان کے بچوں کو بھی پورا پورا حق ہے کہ اس ملک کو حسب معمول لوٹتے رہیں، اس میں کیا حرج ہے، جب ایک لفظ غلط العوام ہو جاتا ہے تو اس کا استعمال خود علم والے جائز قرار دے دیتے ہیں، اس لئے اب یہاں کسی کا ہاتھ نہ روکا جائے تاکہ جو بپتا کل آنی ہے وہ آج ہی آ جائے، اور یہ طرفہ تماشا اپنے انجام کو پہنچے، ہم پرانے کھلاڑی سیاستدانوں کی نئی نسل کا سواگت کرتے ہیں، کیونکہ اب تو یہ حالت ہے قوم کی کہ
لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
####
منظور وٹو نے ہمت کر کے یہ بھی کہہ دیا ہے: لوٹا کریسی کی سیاست کو فروغ دینے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے، اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں ”گنگے دیاں رمزاں گنگے دی ماں ای جانے“ منظور وٹو جو خود لوٹا بنتے بنتے لوٹا ساز ہو گئے، اور اب تو ان کو دور سے اپنے ہم جنس کی پہچان بھی ہو جاتی ہے، اسی پر بس نہیں وہ لوٹوں کے نجومی بھی ہیں، انہیں معلوم ہے کہ کس لوٹے کا مستقبل تاریک ہے اور اپنا مستقبل روشن، بہرحال پیپلز پارٹی پنجاب نے انہیں بہت پسند کیا ہے، بس ایک ”سنت“ کو کمی ہے پھر وہ مکمل ہیں، اور کوئی پتہ نہیں تبلیغی جماعت والے غلطی سے انہیں اٹھا لے جائیں، کوا اپنے بچے کو کہتا رہتا ہے میرے دودھ سے زیادہ سفید بچے ”تینوں رب دیا رکھاں“ یہی وجہ ہے کہ ان کو آج پیپلز پارٹی میں وی وی آئی پی ٹائپ کی پذیرائی ملی، بس ایک ڈر ہے کہ چوہدریوں کی طرح یہ بھی کہیں راندئہ درگاہ نہ ہو جائیں لیکن صدر گرامی قدر کا دل سمندر سے زیادہ گہرا اور ہمالیہ سے بڑھ کر اونچا ہے، وہ کچرے سے بھی گٹار بنا لیتے ہیں، اور سینے سے لگا لیتے ہیں، اور خوب بجاتے ہیں، البتہ یہ سمجھ سے بالا ہے کہ نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا والی سرکار سے آخر ایسا کونسا قصور ہوا ہے، کہ ان کو ہر مقام و منصب سے اٹھا دیا اور اب وہ کہتے پھرتے ہیں
کانوں کیتی اساں نال بس وے
کوئی دوش اساں دا دس وے
ہمارے ہاں لوٹا کریسی، لوٹا سازی، لوٹا بازی سے کون مبرا ہے، جب حالت یہ ہو جائے کہ
واعظ بھی اس بت کو خدا مان رہا ہے
اس شہر میں اب کون مسلمان رہا ہے
تو پھر لوٹے لوٹوں کو لوٹا ہونے کا الزام کیوں دیتے ہیں، یہ تو اب رسم جہان سیاست بن گئی ہے۔ اس لئے کوئی اور قصور ڈھونڈیں قصوری صاحب۔
####
پاک بھارت سیریز میں 6 روز باقی، پاکستانی شائقین ٹکٹ نہ ملنے پر مایوس، ہوٹل بکنگ، ویزہ اور دیگر شرائط کے باعث عین وقت پر تقریباً تمام شائقین بھارت نہیں جا سکیں گے۔
جب بڑوں کی لڑائی ہو رہی ہو، اور ان کے بچے آپس میں کھیلنا شروع کر دیں تو بڑے شرمندہ ہو کر لڑائی بند کر کے ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ہیں، اگر پاک بھارت سیریز ہونے والی ہے، اور پاکستانی شائقین بھارت جانا چاہتے ہیں تو بھارتی نیتاؤں کو لبھو رام کا کردار ادا کرنے کے بجائے، رام رام کرتے ویزے کھول دینے چاہئیں، ٹکٹیں فی الفور دے دینی چاہئیں، اس طرح دونوں ملکوں کے عوام اور کھلاڑی جب ایک میدان میں اکٹھا ہوں گے تو یہ میدان جنگ کا سا سماں بھی باقی نہ رہے گا، دونوں ہمسایوں کو خوشحالی، خوشی، امن چین کی ضرورت ہے، مذہب جدا ہو سکتے ہیں، انسانیت تو جدا نہیں ہو سکتی۔ بعض لوگ خواہ مخواہ روتی سی صورت لئے پھرتے ہیں، اور رو بھی پڑتے ہیں، حالانکہ رونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا، کیا ہم بھارت کے حکمرانوں کو یہ شعر سنا سکتے ہیں؟
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
اگر پاکستان اور بھارت اپنے کانوں سے دماغوں سے میل نکال دیں، تو ان دونوں ملکوں کے لوگ باگ کاکے بالے اور کاکیاں بالیاں کہہ سکتی ہیں
گاتی پھروں اڑتی پھروں مست گگن میں
آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں
یہ سیریز تو بخیر و خوبی اور دونوں ہمسایوں میں پیار محبت کے ساتھ گزر جائے گی لیکن آنجہانی بال ٹھاکرے کی کمی ہمیشہ رہے گی، کیونکہ ان سے بھی ایک رونق تھی، اور ان کا مسلک تھا
نوحہِ غم ہی سہی نغمہِ شادی نہ سہی
####
تازہ ترین