• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاکھوں اسکول ہیں۔ ہزاروں کالج۔ سینکڑوں یونیورسٹیاں۔ جہاں ہر سال بڑی محنت اور محبت سے فصلیں کاشت کی جارہی ہیں۔ والدین اپنا قیمتی سرمایہ خرچ کررہے ہیں۔ اساتذہ اپنی بہترین صلاحیتیں ۔ لیکن یہ فصلیں کھیت سے منڈی پہنچنے تک بے اثر کیوں ہوجاتی ہیں۔ معاشرہ ان کی تاثیر سے محروم کیوں رہتا ہے۔

جب بھی کسی اسکول یا کالج کی تقریب میں جانا ہو تو بچیوں۔ بچوں ۔ نوجوانوں کے تمتماتے چہرے دیکھ کر مجھے اپنے مستقبل کی تابناکی کا یقین ہونے لگتا ہے۔ لیکن میں وہیں اس سوچ میں گم ہوجاتا ہوں کہ جب یہ پُر عزم نسل عملی زندگی میں ایک سمندر میں اُترے گی تو کیا اپنی جولانی۔ اپنی سچائی برقرار رکھ سکے گی ۔یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہر سال فارغ التحصیل طلبا و طالبات کے تازہ دم دستے نکل رہے ہیں مگر ان دریائوں کا میٹھا پانی بھی ہمارے قدرتی دریائوں کی طرح ایک کھارے سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے۔ ہم کوئی ڈیم نہ ان دریائوں پر باندھ سکے۔ نہ ان دریائوں سے شادابی و سیرابی کے حصول کے لئے کچھ کرسکے۔ میں تو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے بھی یہی سوال کرتا ہوں۔ کالجوں کے پرنسپلوں سے بھی۔ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریسوں سے بھی کہ یہاں کئی کئی سال گزارنے والے پاکستانی ملک میں کوئی تبدیلی کیوں نہیں لا پاتے۔ کیا ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں ہے۔ کیا ہم وہ سبق نہیں پڑھاتے جس سے صداقت۔ شجاعت۔ دیانت کی بنیاد رکھی جائے۔

ہماری فصلیں بے ثمر ہورہی ہیں۔ ہماری نسلیں بے خبر ہورہی ہیں۔میں اسو قت کراچی کے ایک انتہائی غریب مگر بہت سلیقے سے آباد کئے نارتھ کراچی کے ناصرہ اسکول میں ننھی منّی بچیوں کے دمکتے چہرے دیکھ رہا ہوں۔ انگریزی شاعری پڑھی جارہی ہے۔ کیا پُر اعتماد لہجہ ہے ۔ بہترین تلفظ ہے۔ ہاتھوں کے اشارے ہیں ۔ سننے والے اش اش کرنے پر مجبور ہیں۔ ناصرہ اسکول اپنے 70سال پورے ہونے کا جشن منارہا ہے۔ جناب وزیر علی۔ ناصرہ وزیر علی۔ درسگاہوں کے اس سلسلے کی بنیاد 1949ءمیں رکھ گئے تھے۔ان کے کیا خواب ہوں گے۔ کتنا درست سوچا تھا۔ کوئی کارخانہ لگایا نہ ٹریڈنگ کمپنی۔ نہ کوئی رہائشی منصوبہ۔ مکتب قائم کیا تاکہ نسلوں کی تربیت ہوسکے۔ ان کی صاحبزادی شہناز وزیر علی اس کا شیریں ثمر ہیں۔ وہ تعلیم کے میدان سے ہی وابستہ رہی ہیں۔ اب شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(زیبسٹ)کی صدر ہیں۔ پرائمری اسکولوں کی ٹیچرز جنہیں مس کہاجاتا ہے۔ چاہے وہ بال بچوں والی ہوں۔ یہ مائیں بہنیں اور پرائمری کے مرد ٹیچر۔ جنہیں سر کہا جاتا ہے۔ ہم تو انہیں ماسٹر جی کہا کرتے تھے۔ یہ سب بہت محنت کرتے ہیں ۔ بہت محبت سے پڑھاتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ دیگر مراعات بھی نہیں۔ بہت کم اسکولوں میں سواری فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن یہ اپنے دن رات ہمارے اور اپنے مستقبل کی تعمیر میں صَرف کردیتے ہیں۔ آئندہ نسلوں کو فن تحریر و تقریر سے آگاہ کرتے ہیں۔ انہیں سامعین کا سامنا کرنا سکھاتے ہیں۔

ان اسکولوں کے بچے بچیاں روزانہ اپنے علاقے کی گندگی، کچرے میں سے ہوتے اسکول پہنچتے ہیں۔ آج وہ دیکھتے آرہے تھے کہ علاقے میں بڑی بڑی بھاری مشینیں سڑکیں صاف کررہی ہیں۔ ٹرک کچرا، گندگی اٹھاکر جارہے ہیں۔ وہ بڑے خوش ہیں۔ لیکن اسکول کے سامنے پلاٹ میں کچرا اسی طرح بکھرا ہوا ہے۔ مہمانوں کی گاڑیاں اسے کسی حد تک چھپارہی ہیں۔ صوبے کے وزیر بلدیات مہمان خصوصی کی حیثیت سے آتے ہیں تو اس ہنگامی صفائی کا راز کھلتا ہے۔

کیا وزیر موصوف غور کریں گے کہ ان بچوں بچیوں کے ذہنوں پر ان واقعات کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ پورے ملک میں یہی حال ہے۔ اسکولوں کالجوں ،یونیورسٹیوں کے باہر اسی طرح کچرا بکھرا ہوا ہے۔ناصرہ اسکول میں کراچی کے دوسرے حصّوں سے بھی بچیاں بچے آئے ہوئے ہیں۔ ملیر آفٹر نون۔ کورنگی کیمپس۔ ملیر آفٹر نون اچھا عنوان لگتا ہے۔افسانہ یا ناول لکھا جاسکتا ہے۔ سب بچے بچیوں کی بہت اچھی تیاری ہے۔آج کا میرا دن علم و دانش اور تحقیق میں گزر رہا ہے۔ کتنا خوش قسمت ہوں۔ حکمرانوں۔ سیاستدانوں اور دکانداروں سے بچا ہوا ہوں۔ ایک اور قدیم تعلیمی ادارہ۔اسی عزم سے قائم کیا ہوا ۔سر سید گورنمنٹ گرلز کالج۔ الطاف علی بریلوی یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کے مستقبل کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ یہاں آج پی ایچ ڈی کرنیوالوں کا ایک اجتماع ہے۔ پروفیسر فرحت عظیم اس کی محرّک ہیں۔ میں ایک کم علم۔ میرے لئے طالبات پھولوں کی پتیاں نچھاور کررہی ہیں۔ میں شرمندہ ہورہا ہوں۔ میں تو اب تک علم کے سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں۔ کوئی موتی تلاش نہ کرسکا۔محققین نے اپنی تنظیم کا نام Pakistan Research Scholars Association رکھا ہے۔ اسی نسبت سے اپنے آپ کو ’’پارسا‘‘ کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پارسائی کے اصل دعویداروں سے محفوظ رکھے۔ جن کیلئے یہ مصرع میرے ذہن میں اُچھل رہا ہے:

من تو خوب می شناسم پیران پارسا را

(میں ان بزرگ پارسائوں کو اچھی طرح پہچانتا ہوں)

یقیناً پاکستان کو تحقیق کی بہت ضرورت ہے۔یہ اچھی کوشش ہے کہ ان تحقیقی اسکالرز نے منظّم ہونے کی ٹھانی ہے وہ اپنے حقوق کے لئے بھی غور و فکر کرکے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ اور تحقیق کے شعبے میں دُنیا بھر میں۔ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں جو نئی جہات اور رُجحانات اختیار کئے جارہے ہیں۔ وہ بھی اپنا سکیں گے۔

میرے ذہن میں بہت سے سوالات تڑپ رہے ہیں۔ یہ خواتین و حضرات۔ جنہوں نے کئی کئی سال تحقیق کی نذر کئے۔ کتنے کتب خانوں کی خاک چھانی ہوگی۔ علم کے نئے نئے آفاق تسخیر کئے ہوں گے۔ یہ سب قابل احترام ہیں۔ آگہی آئندہ نسلوں تک منتقل کررہے ہیں۔ میں ان کے آگے یہی سوالات رکھ رہا ہوں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں محققین کے مقالوں نے ہی اندھیرے دور کئے۔تحقیق سے ہی بجلی ایجاد ہوئی۔ علاج معالجے کے نئے طریقے بھی۔ ہمارے ہاں تحقیق کے موضوعات کس بنیاد پر منتخب کئے جاتے ہیں۔ کیا ان سے معاشرہ تبدیل کرنے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ کیا ان کوتاہیوں اور غلطیوں کو تلاش کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔ کیا ہمارے کسی تحقیقی مقالے نے ملک میں ہلچل مچائی۔ کیا کسی تحقیق سے ایسی دریافت یا ایجاد ہوئی کہ ہماری زراعت میں انقلاب آگیا ہو۔ ہماری سیاست کوکوئی سمت ملی ہو۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی رہنمائی ہوئی ہو ۔

’’پارسائوں‘‘ سے یقیناً امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ وہ منظّم ہوکر ملک گیر اجتماع میں اس عظیم مملکت کے وسائل اور مسائل پر غور کریں۔ یہاں کی ضلعی معیشت کوسامنے رکھیں تو یقینا ًکوئی راہ نکل سکتی ہے۔ تحقیق کے لئے موضوعات ایسے منتخب کئے جائیں جن کا ہمارے معاشرے سے براہِ راست تعلق ہو۔

میرا درد یہی ہے کہ پرائمری اسکولوں میں ہماری آئندہ نسلیں معصومیت اور سچائی کا پیکر ہوتی ہیں۔ ہائی اسکولوں میں خوابوں اور عزائم کا دور ہوتا ہے۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں ذہنی کشمکش اور عملی تضادات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ان سب انسانی جبلتوں ، خصوصیتوں اور زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پورے ملک میں ہر سطح کی تدریس کے لئے ایک نصاب تشکیل دیا جائے تو ایک قوم ہونے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ مگر ماہرین تعلیم یہ کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان میں سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے۔

تازہ ترین