• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام سےاب تک نیب کی اوسطاً ماہانہ وصولی 1.31ارب روپے رہی

لاہور(صابرشاہ)16نومبر1999کو اپنے آغاز سے اب تک قومی احتساب بیورو(نیب) مختلف افراد اوراُن فراڈ کمپنیوں سےجنھوں نے قومی خزانے اور عوام کو لوٹا، اُن سےاب تک صرف 298.714ارب روپےوصول کرچکاہے، اگرچہ اِن 19سالوں میں اس ادارے کو12ارب روپے کاسرکاری فنڈزملاہے۔ ‘‘جنگ گروپ اور جیوٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ کی جانب ایک سادہ حساب کتاب سے پتہ لگتاہے کہ 19سالوں میں 298.714ارب روپے کی وصولی کا مطلب ہے کہ کرپشن پر نظررکھنے والے اس ادارے نےکرپٹ عناصر سےاوسطاً سالانہ 15.7217ارب روپے یا ماہانہ 1.31ارب روپے وصول کیے ہیں۔ یقیناًوصولی کا طریقہ کار سست ہے اور اعدادوشمار بھی چھوٹےہوسکتےہیں لیکن تنقید کا شکارنیب ایک سابق صدر آصف علی زرداری اور وزرائےاعظم جن میں موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے پیشرونوازشریف، شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف، سید یوسف رضا گیلانی اور چوہدری شجاعت حسین بھی شامل ہیں،اُن کے خلاف تحقیقات کررہاہے۔ عمران خان اپنی پارٹی کےخیبرپختونخوا میں گزشتہ دورِحکومت کےدوران مبینہ طورپرصوبائی حکومت کےہیلی کاپٹرکےغلط استعمال کےکیس میں نیب کے پشاو ر آفس میں 7اگست2018کو پیش ہوئے تھے،وہ کیس تاحال جاری ہے۔ اب تک صرف ایک ملزم (میاں ارشد بٹ)کی چمبا ہائوس لاہور میں نیب حراست میں ریاستی زمین پرغیرقانونی قبضہ کرکے ہائوسنگ کالونی بنانےکی تفتیش کےدوران موت ہوئی۔ نیب کےمطابق ارشدکو 7اگست 2001کو نیب کی حراست میں ہارٹ اٹیک ہواتھا۔ ملزم کاسات روزہ ریمانڈ دیاگیاتھا۔ تاہم 9اکتوبر2001کو لاہور ہائی کورٹ نےپولیس کی جانب سے نیب کےدو افسرا ن(کرنل جاوید ظہوراور محمود)کےخلاف کیس درج کرنےکی رِٹ پٹشن سرسری طورپرمسترد کردی تھی، رِٹ پٹشن میں کہاگیاتھاکہ اِن دوافسران کے خلاف مبینہ طور پرپی پی پی کارکن میاں ارشدبٹ کوتشدد کرکےقتل کرنے پرکیس درج کیاجائے۔ جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کےپاس یہ پٹشن تھی جسے متوفی کےبیٹے ریئس ارشد نےدائرکرایاتھا، اس میں کہاگیاتھاکہ درخواستگزار کے پاس مبینہ طورپرایف آئی آردرج کرنے سےانکاری پولیس کےخلاف قانونی راستہ ہے۔ یہ ہی بنیادی وجوہات میں سےایک وجہ ہےکہ کیوں کئی میڈیا تجزیہ کارقیصر امین بٹ کے معاملےپر آواز اٹھارہےہیں کہ چونکہ سابق ایم پی اے قیصرادویات استعمال کرتےہیں لہذا کم از کم سعد رفیق کی گرفتاری تک ان کی ’’ضروریات‘‘ پوری کرتے ہوئے نیب کوان کےساتھ مختلف سلوک کرناچاہیےتھا، ورنہ پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی سکینڈل نیب لاہورکی انتظامیہ کیلئے ایک بدنماداغ بن جائے گا، جیسا لیفٹیننٹ جنرل(ر)خالد مقبول کیلئے 2001میں ہوا تھا۔ جب نیب انتظامیہ پہلےہی سابق وفاقی وزیر اور پی ایم ایل (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے چھوٹے بھائی سلمان رفیق کوپیراگون ہائوسنگ سکینڈل میں گرفتارکرچکی ہےاوراب اس نےسابق صدرآصف زرد ار ی اوران کے بیٹے بلاول بھٹو کوبھی پارک لین سٹیٹ کیس میں آج(ٗجمعرات کو) طلب کررکھاہے، تو اس سے پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) دونوں کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور نیب پر تنیقد کرنے کا موقع ملاہے۔ تقریباً2ہفتے قبل آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سامنے منی لانڈرنگ کیس میں پیش ہوئے ہیں۔ دونوں کو ایف آئی اے نے جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈنگ کے کیس میں بیان ریکارڈکروانےکیلئےطلب کیاتھا۔ 31اکتوبر 2018 کو نیب نے 71سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرکاری عہدے رکھنے والوں کی وہ فہرست جاری کی تھی جن سے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق تحقیقا ت کی گئیں تھیں۔ مذکورہ بالا سربراہانِ حکومت کے علاوہ 31اکتوبر کو نیب کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں سابق اور موجودہ وزرائے اعلیٰ سید مراد علی شاہ، پرویزخٹک، اسلم خان رئیسانی، سردار ثنااللہ زہری، شہباز شریف اورچوہدری پرویز الہٰی کےنام بھی شامل تھے۔ اکتوبر 2018کی بیب کی فہرست میں کئی نامور اور حیران کن نام بھی شامل تھے جن میں کراچی کے موجودہ میئروسیم اختر، سندھ کے ایم پی اے نواب محمدتیمورتالپور، ڈی گی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظورقادر، سینیٹرعثمان سیف اللہ، عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، وزیراعظم عمران خان کےسپیشل اسسٹنٹ ذوالفقاربخاری، وزیراعظم کےسابق سیکریٹری فوادحسین فواد، ایم کیوایم کے بابر غوری، پی پی پی کے ڈاکٹرعاصم حسین، آغا سراج درانی، نامور بینکر شوکت ترین، پنجاب کے سابق وزیر رانا مشہود، حنیف عباسی، علیم خان، علی ارشدحکیم، عبداللہ یوسف، سلمان صدیقی، فواد حسن فواد، احدچیمہ، ایاز خان نیازی، ریاض پیرزادہ، بابرعوان، ڈاکٹرطارق فضل چوہدری، سہیل انورسیال، رئوف صدیقی، شرجیل انعام میمن، جام خان شورو، اعجاز جاکھرانی، لیاقت جتوئی، سبغت اللہ راشدی، صدیق میمن، غلام حیدرجمالی، منظور وسان، عصمہ عرب عالمگیر اور عرب عالمگیر خان، اکرم درانی، کیپٹن(ر) محمدصفدر، سابق آئی جی پی ملک نوید، خالد لنگو(سابق مشیروزیراعلیٰ بلوچستان)، مشتاق رئیسانی (سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان)، اسفند یارکاکڑ، محمد عاصم کرد، میرشاہ جہان کہتران، سعادت انور، رحمت بلوچ شامل تھے۔ 28اگست2018 تک نیب سیکڑوں لوگوں کے خلاف انکوائریاں اور تحقیقات کررہاتھا ان میں 70سیاستدان121بزنس مین اور20گریڈ یا اس سے اوپر کے210سرکاری افسران تھے، یہ سب وزیرِ قانون فروغ نسیم نے سینیٹر عتیق خان کے سوال کے جواب میں سینٹ کوبتایاتھا۔
تازہ ترین