• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج 20دسمبر ہے۔ چالیس سال قبل 1972 میں اسمبلی ہال کے عقب میں اس وقت خواجہ محمد رفیق کو چند بدبختوں نے گولیاں مار کر شہید کردیاجب وہ ایک احتجاجی جلسہ کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ واپس جارہے تھے۔ خواجہ محمد رفیق ایک بڑے ہی ہردلعزیز سیاسی رہنما توتھے ہی لیکن لاہور میں ہر طبقہ میں انہیں عقیدت و محبت سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شہادت پر لاہور میں قیامت ٹوٹ پڑی اور حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد حنیف رامے نے ملتان میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسے ”حادثاتی واقعہ“ قرار دیا اور لاہور آ کر اسمبلی چیمبر میں ایک پریس کانفرنس طلب کی جس میں ان کاموقف یہ تھا کہ خواجہ صاحب شہید کا قتل سیاسی قتل نہیں اور اسے سیاسی رنگ نہ دیاجائے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ اخبارات میں اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔میں نے ان سے کہا کہ جناب! آپ لوہاری دروازہ جا کردیکھیں کارکن اور عوام بڑے مشتعل ہیں۔ میرے خیال میں دوسرے اخبارات چھوڑیں آپ کا اپنا اخبار ”مساوات“ بھی اسے لیڈ سٹوری دینے پرمجبور ہو جائے گا۔ مقامی سیاسی جماعتیں اور کارکن بضد تھے کہ خواجہ صاحب شہید کے جنازے کا جلوس مال روڈ پرگورنرہاؤس تک جائے گا۔ اس وقت مصطفی کھر پنجا ب کے بڑے ہی بااختیار گورنر تھے اتنے کہ وزیراعلیٰ کوعلم بھی نہیں ہوتا تھا اور گورنرہاؤس میں پنجاب کابینہ کے اجلاس ان کی صدارت میں ہوتے تھے۔ گورنرپنجاب مصطفی کھر خواجہ صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان اتحاد پارٹی کے ایک اہم عہدیدار کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے اور ان سے یہ سودا کیاگیاکہ جنازے کا جلوس مال روڈ سے نہیں گزرے گا۔ جب یہ عہدیداراندرون لوہاری گیٹ پہنچے تو گورنرہاؤس کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی چنانچہ کارکنوں نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور قریب تھا کہ ان پر حملہ کر دیاجاتا چند معززین نے انہیں وہاں سے روانہ کر دیا اوروہی ہوا کہ وقت کی جابر حکومت نے عوام کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ حکمران ترجمان اخبار روزنامہ ”مساوات“ سمیت تمام اخبارات نے ان کی شہادت کی لیڈ سٹوری دی اوران کے جنازے کا جلوس لوہاری گیٹ ، مال روڈ سے ہوتا ہوا قبرستان میانی صاحب پہنچا ۔ جلوس کے شرکا انتہائی مشتعل تھے اور یہ نعرہ لگا رہے تھے ”ایک سر کے بدلے تین سر، بھٹو رامے اورکھر“ ابھی بہت سے بزرگ حیات ہیں جنہوں نے اس جلوس میں شرکت کی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا چارجڈ اور بڑاا جنازے کا جلوس نہیں دیکھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ غازی علم دین شہید کے بعد لاہور میں یہ دوسرا بڑا جنازہ تھا اورکیوں نہ ہوتا کہ خواجہ محمد رفیق ایک ایسے سیاستدان تھے جنہوں نے آمر وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا بلکہ ایک مدت قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ وہ پکے سچے ایسے کارکن تھے جنہوں نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔ حکمرانوں نے انہیں ہر طرح کی لالچ دی اور وزارت سفارت کی پیشکش کی گئی لیکن خواجہ صاحب نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ انہوں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور یہ بات شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران امرتسر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرخواجہ صاحب شہید نے ”بچہ مسلم لیگ“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ مرحوم سردارصادق اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اس میں ملک حامد سرفراز، پیر صلاح الدین، خواجہ احسان اللہ، ملک جہانگیر وغیرہ بھی شامل تھے۔ غیور الاسلام نے علی گڑھ میں اس کی برانچ قائم کی جو بعدمیں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹررہے اور علی گڑھ یونیورسٹی یونین کے صدربھی بنے۔ اس بچہ مسلم لیگ کے بارے میں مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستار نیازی نے ایک بار بتایا تھا کہ حضرت قائداعظم کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے پسندیدگی کا اظہارکیا ۔
خواجہ محمد رفیق کی اجلی سیاسی زندگی سیاسی کارکنوں کے لئے مشعل راہ ہے اور ان کے ہونہار صاحبزادے خواجہ سعدرفیق اورخواجہ سلمان رفیق نے اپنے والد گرامی کے مشن کو جاری و ساری رکھااوراپنے باپ کے نقش قدم پررواں دواں ہیں اورآخرمیں ایک واقعہ سن لیجئے۔وزارت سے نکلنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب پہلی بار لاہور آئے تو انہوں نے حبیب جالب سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ جالب خود ہوٹل میںآ کر ان سے نہیں ملے گا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں۔ حبیب جالب روز دوپہر میں کافی ہاؤس میں آیا کرتے تھے چنانچہ طے پایا کہ جب وہ کافی ہاؤس پہنچیں تو ہوٹل میں اطلاع کردی جائے اور بھٹو صاحب خود وہاں جائیں گے۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق بھٹوصاحب کافی ہاؤس جا پہنچے اور حبیب جالب سے ملاقات کی۔ ریستوران کی مین ٹیبل پر بھٹو صاحب اور بہت سے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ جالب ان کی فرمائش پر انہیں شعر سنا رہے تھے کہ خواجہ محمد رفیق ریستوران میں داخل ہوئے اور الٹے ہاتھ کی ایک میز پر جہاں معروف انقلابی لیڈر مرحوم لال خان، ابویوسف قاسمی اوردوسرے دوست بیٹھے ہوئے تھے، ان میں جا کر بیٹھ گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے رؤف طاہر سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ خواجہ رفیق ہیں توانہوں نے کہا کہ انہیں مجھ سے ملاؤ۔ باقی لوگ تو خاموش رہے لیکن حبیب جالب نے پیچھے کی طرف رخ کرکے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”خواجہ صاحب! بھٹو صاحب آپ کویاد کر رہے ہیں“ یہ جملہ سنتے ہی خواجہ محمد رفیق (جنہیں میں نے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا) نے انتہائی برہمی کے انداز میں بلند آواز کہا ”یہ ایک آمر اور پاکستان کے دشمن کا ساتھی رہا ہے تم اسے شعر سناؤ۔ تمہیں مبارک ہو۔ میں ایسے شخص کی صورت بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔“ اور اٹھ کر ریستوران سے باہر چلے گئے۔
تازہ ترین