• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخواہ کابینہ میں توسیع کا فیصلہ ایک بار پھر لٹک گیا

گلزار محمد خان، پشاور

نئی حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی 100روزہ پلان کی تیاریوں کا اعلان کیا گیا تھا ،اس حوالے سے دو مختلف اور متضاد آراء سامنے آرہی تھیں بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ 100روزہ پلان درحقیقت سو دنوں میں کچھ کرکے دکھانے کا نام ہے تاہم بعض حلقوں کے مطابق سو روزہ پلان کا مقصد 100دنوں میں پانچ سال کی حکمت عملی کی تیاری ہے، مطلب کوئی بھی ہو، درحقیقت اس پلان اور اس کی تیاریوں نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کو بریک لگادیتی تھے کیونکہ سب وزرا ءکا یہی کہنا تھا کہ ان دنوں صرف اور صرف سو روزہ پلان پر ہی توجہ دینی ہے، باقی معاملات بعد میں دیکھے جائیں گے ، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی محکموں نے اپنے اپنے سو روزہ پلان مکمل کرکے وزیر اعظم کو بریفنگ بھی دیدی ہے جبکہ اب صوبائی محکموں کی باری آنیوالی ہے اگر خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو گزشتہ سو دنوں سے یہاں پر سرکاری امور عملاً ٹھپ پڑے ہوئے ہیں کیونکہ اکثر وزرا ءصاحبان سو روزہ پلان کی تیاریوں کے نام پر روز مرہ کے کام سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیںاب کہا جارہا ہے کہ تمام محکموں نے اپنے اپنے پلان کو حتمی شکل دیدی ہے جس کے بعد اب متعلقہ وزراء کی طرف سے اس حوالے سے میڈیا کو آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے بلکہ اب وزیراعظم عمران خان خود اس کا جائزہ لینے کیلئے پشاور آرہے ہیں ان کے دورہ کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محمود خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم دورہ پشاور کے دوران کابینہ ارکان کیساتھ ملاقات کرینگے جبکہ انہیں سو روزہ پلان پر بریفنگ دی جائیگی ،ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی تمام تر کارکردگی کی بنیاد ان سو دنوں کی تیاری پر ہی رکھ لی ہے اور اب اگر سو روزہ پلان کے بوتل سے کچھ نہ نکلا تو یقیناً اس کا اثر اگلے پانچ سال کے دوران حکومتی کارکردگی پر منفی انداز میں پڑ سکتا ہے، دیکھنا اب یہ ہے کہ صوبائی وزراء اپنے سو روزہ پلان کے حوالے سے عمران خان کو کس طرح مطمئن کرپاتے ہیں کیونکہ وہ متعدد مواقع پر واضح کرچکے ہیں کہ ٹھیک کارکردگی نہ دکھانے والے وزرا ءکو عہدوں سے فارغ کردیا جائیگا اگر سو دنوں کی بات کی جائے تو ان سو دنوں کے دوران قبائلی اضلاع کے حوالے سے کسی قسم کی پیش رفت نہ ہوسکی ،ہائیکورٹ کی جانب سے پولیس اور عدالتی نظام کے قیام کیلئے دی گئی ڈیڈلائن کب کی ختم ہوچکی ہے مگر تاحال ان علاقوں میں عدالتوں اور پولیس کو توسیع نہیں دی جاسکی بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ علاقے عملاً ان دنوں بغیر کسی قانون کے پڑے ہوئے ہیں اور اگر بروقت کوئی متبادل نظام نہ لایاگیا تو بڑی پیچیدگیوں کا اندیشہ ہے انضمام کے موقع پر یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اگلے سال کے شروع میں صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی کروادئیے جائینگے مگر وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے بار بار رابطوں کے باوجود الیکشن ایکٹ میں ایک چھوٹی سی ترمیم تک نہ کی جاسکی جس کی وجہ سے حلقہ بندیوں کا معاملہ التوا ءکا شکار ہوتا جارہا ہے اور الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کیلئے تیسرا شیڈول جاری کرچکا ہے تاہم اگر وفاقی حکومت نے ابھی ترمیم پر توجہ نہ دی تو الیکشن کمیشن کو چوتھا شیڈول بھی جاری کرنا پڑ سکتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ بلدیاتی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مزید تاخیر ہوگی اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی قبائلی اضلاع کے عوام میں بے چینی بڑھتی جائیگی ،فاٹا انضمام کی مخالف قوتیں پہلے ہی علاقے میں سرگرم ہیں جبکہ ساتھ ہی علاقے میں تعینات بعض انتظامی افسران بھی مبینہ طور پر انضمام مخالفین کو شہ دینے میں مصروف ہیں اگرچہ صوبائی حکومت متعدد مواقع پر یہ کہہ چکی ہے کہ ایسے افسران کیخلاف سخت کاروائی کی جائیگی اور اس سلسلے میں عوامی شکایات کی بنیاد پر ہی ضلع مہمند کے ڈپٹی کمشنر کو او ایس ڈی بنایا جاچکا ہے اس کے باوجود علاقہ میں انضمام مخالف سرگرمیاں جاری ہیں جبکہ دوسری طرف انضمام کی حامی قوتیں بالکل خاموش دکھائی دے رہی ہیں حالانکہ حالیہ انتخابات میں انضمام مخالف قوتوں کو واضح مارجن سے شکست ہوچکی ہے گویا انتخابات کو انضمام کے حوالے سے ریفرنڈم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا تعلق ہے تو ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہاہے کہ جوں ہی سو روز ہ پلان مکمل ہوگا تو وزیر اعلیٰ ایک نئے روپ میں سامنے آئینگے اور اگر دیکھا جائے تو اب رفتہ رفتہ وہ قدرے متحرک ہوتے جارہے ہیں نہ صرف دوروں بلکہ چھاپوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے اور اسی نوعیت کے ایک چھاپے کے نتیجے میں گزشتہ دنوں انہوں نے عوامی شکایات پر محکمہ ایکسائز کا پورا سکواڈ معطل کردیا ، محمود خان کو ایک ایسے مرحلہ پر اقتدار ملا تھا کہ کافی طاقتور امیدوار اس عہدہ کیلئے میدان میں تھے تاہم قسمت نے محمود خان کا ساتھ دیا اور وزارت اعلیٰ کا عہدہ ان کو مل گیا، مخالف حلقوں کی سرگرمیاں پھر بھی جاری رہیں اور چند ہفتوں بعد یہ افواہیں اڑانے لگیں کہ عمران خان ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور ان کی تبدیلی کا فیصلہ کرلیاگیا ‘اس موقع پر محمود خان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے براہ راست عمران خان کے ساتھ بات کی کہ اگر ایسی کوئی بات ہے تو وہ اسی وقت عہدہ چھوڑنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ایسے حالات میں کام کرنا ویسے بھی آسان نہیں مگر وزیراعظم نے ان کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ صرف وہی پانچ سال تک تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ رہیں گے یوں وہ مضبوط سند لے کر پشاور آئے اور اب ان کا اعتماد مزید بڑھ چکا تھا چنانچہ ان دنوں وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں اور جلد ان کی طرف سے قبائلی اضلاع کے دوروں کا آغاز کیا جارہا ہے اندرونی اختلافات کی وجہ سے صوبائی کابینہ میں توسیع کا مرحلہ واضح طور پر موخر کیا جاچکا ہے کیونکہ اس حوالے سے تاحال نئے ناموں پر اتفاق نہیں ہوسکا کیونکہ خواہش مندوں کی طرف سے لابنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مختلف سینئر رہنماؤں کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ اپنے اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کیا جاسکے اس مرحلہ پر بھی محمود خان نے مناسب فیصلہ کرتے ہوئے ایم پی ایز اور خالی محکموں کی فہرست وزیراعظم کو بھجوا رکھی ہے اور اب وہی فیصلہ کرینگے، یوں وزیر اعلیٰ نے خود کو دباؤ سے نکال دیا لیا ، ویسے بھی پی ٹی آئی کے کسی بھی رہنما میں وزیر اعظم عمران خان کے فیصلہ سے اختلاف کی جرأت نہیں ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین