• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کسان 70 فیصد ہیں، انہیں گنے کا معاوضہ ضرور دلایا جائے

تجمل گرمانی، لاہور

پنجاب میں گنے کی خرید میں بے جا تاخیر سے کاشتکا ر تباہی کا شکار ہو گئے ہیں، گنے کی ایک سال تک دیکھ بھال کے بعد اس کے فروخت کا وقت شروع ہو ا تو شوگر مل مالکان نے شور ڈال دیا کہ گنے کی امدادی قیمت زیادہ ہے ، حکومت نےچینی کی قیمتوں میں اضافہ ، بقایا جات کی ادائیگی ، سبسڈی اور چینی کی برآمد کی اجازت نہ دی تو ملیں نہیں چلیں گے ، لاہو ر میں کسا ن تنظیموں نے شد ید احتجاج کیا ، مختلف شہروں میں گنے کی فصل کو جلا یا گیا ،صوبائی اسمبلی اجلاس میں سرکاری اور اپوزیشن ارکان نے شور شرابا کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے شوگر مل مالکان سے مزاکرات کئے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مالکان کے مطالبات تسلیم لیکن ان کے مطالبات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ، شوگر ملیں نہ تو گنےکی امدادی قیمتیں ادا کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی گنے کی خریداری کا عمل شروع ہوا تاہم نوید ہے کہ 15دسمبر تک ملیں کھلنے کے بعد گنے کی خریداری شروع ہو جائے گی ۔

پنجاب میں گنے کے کاشتکاروں کے مسائل میں سرفہرست امدادی قیمت ہے ، پیپلزپارٹی حکومت نے چھ برس قبل گنے کی امدادی قیمت 150روپے سے بڑھا کر 180کر دی جس کے بعد مسلم لیگ ن پانچ سال برسر اقتدار رہنے کے باوجودگنے کی امدادی قیمت میں اضافہ نہ کر سکی ، تحریک انصاف کی موجود ہ حکومت نے بھی گنے کی امدادی قیمت کو برقرار رکھا ہے اور رواں سال گنا 180روپے من خرید ہو گا ۔ گنے کی فصل اکتوبر میں تیار ہو تی اور شوگر ملیں 15نومبر کو گنے کی خرید شروع کر تی ہیں لیکن رواں سال دسمبر کے وسط تک ملیں چلیں گی جس سے کاشتکار کو دوہر ا نقصان ہوا ، ایک تو گنے کی بروقت خریداری نہ ہونے سے گنا کھیتوں میں خشک ہو گیا جبکہ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ جن کاشتکاروں نے گنے کے کھیتو ں میں گزشتہ ماہ نومبر میں گندم کی فصل کاشت کر نی تھی وہ فصل کی کاشت سے محروم ہو گئے ۔ پنجاب میں کاشتکار گنے کی فصل کے لئے سال بھر بیج، کھاد، ڈیزل سمیت دیگر اخراجات قرض لے کر پورے کر تے ہیں لیکن جب فصل کی فروخت کا وقت ہو اتو ملیں بند ہیں ۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 47شوگر ملیں ہیں جن میں 43چالو ہیں ، مل مالکان نے کرشنگ سیزن 2017-18کے دوران 27ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی ، مل مالکان سیا سی لحاظ سے بہت طاقتور مافیا ہے اور اس وقت پنجاب میں سب سے زیادہ ملیں مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سے وابستہ سیاستدانوں کی ملکیت ہیں لہذا ان کے اثر و رسوخ کے سامنے حکومت بھی بے بس ہو تی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کاشتکاروں کی ادائیگیاں کلئیر نہیں ہوئیں بلکہ گنے کی خرید میں تاخیر اور امدادی قیمتوں کا مسئلہ تاحال برقرار ہے ۔ گنے کی خرید میں تاخیر سے شوگر ملوں میں کام کرنے والے ہزاروں عارضی ملازمین بھی آٹھ مہینوں سے گھروں میں بے روزگار ہیں جبکہ گنے کی کٹائی کرنے والے مزدور اور کھیت سے ملوں تک گنے لے جانے والے ٹرانسپورٹرز بھی بے کارہیں ، مالکان نے 15دسمبر تک ملو ں کو چالو کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم گنے کی پوری قیمت نہ دینے کے متعلق ابھی تک بضد ہیں۔ گزشتہ سال بھی مالکان نے گنا خرید کر گنے کی خریدار ی رسید (سی پی آر) پر قیمت 180روپے من لکھی تھی لیکن ووچر 140روپے من دئیے گئے اور اسی کے مطابق ادائیگیاں ہو ئی تھیں، کاشتکاروں سے مزید ظلم کیا کہ ناقص گنے کا اعتراض لگا کر 20فیصد کٹوتیاں کی گئیں، پنجاب میں گزشتہ سال 2اعشاریہ 12ملین ایکڑ رقبے پر گنا کاشت ہوا لیکن مل مالکان کے ظلم و ستم کے باعث رواں سال گنے کی فصل کم رقبے پر کاشت ہوئی جبکہ خشک سالی، ڈیزل اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور نہری پانی کی بندش سے گنے کی اوسط پیدا وار ایک ہزار من فی ایکڑ سے کم ہو کر 700من فی ایکڑ ہوگئی ، مل مالکان قیمتوں کے معاملے میں اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو گنا کی کاشتکاروں کے لئے اخراجات پورے کرنے مشکل ہو جائیں گے لہذا حکومت کا فرض ہے کہ ملو ں کو فوری طور پر چالو کرے اور گنے کی طے شدہ قیمتوں کو یقینی بنایا جائے۔ فارمرز ایسو سی ایشن پاکستان کی ڈائریکٹر رابعہ سلطان کہتی ہیں کہ گنے کا موجودہ بحران گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ کسان بھگت رہے ہیں، شہباز شریف نے 180روپے من گنے کی خرید کا اعلان کیا لیکن ان کی اپنی ملیں 120روپے من گنا کی ادائیگی کر تی رہیں، محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق رواں سال گنے کی کاشت کے پیدا وا ری اخرا جات 194روپے من ہیں ، 180روپے من کا مطلب ہے کہ کسان پہلے ہی 14روپے نقصان پر گنا بیچ رہا ہے ، اوپر سے ملیں نہیں چل رہیں اور مقررہ قیمتوں کی ادائیگی بھی نہ ہوئی تو کسان گنا کاشت کرنا چھوڑ دیں گے ، قیام پاکستان کے وقت ایک شوگر مل تھی اور آج ملک میں 84شوگر ملیں ہیں ، ملیں خسارے میں ہیں تو ان کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے ، کسان گنے کی کاشت چھوڑ گئے تو ملوں کا کاروبار کیسے چلے گا، مل مالکان گنے سے چھ مصنوعات تیار کر تے ہیں لیکن قیمت ادا کر تے ہوئے صرف چینی کی قیمت ظاہر کر تے ہیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتے ہیںانھیں کسانوں کی امداد کرنی چاہئے اور گنے کی پوری قیمت ادا نہ کرنے والی ملوں کے خلاف شوگر فیکٹری کنٹرول ایکٹ کے تحت کارروائی کرنی چاہئے ، جہانگیر ترین کی مل 180روپے من قیمت دے سکتی ہے تو باقی ملوں کو کیا مسئلہ ہے ۔ میاں وحید چودھری دو شوگر ملوں کے مالک اور پاکستان شوگر مل ایسو سی ایشن کے ترجما ن ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ گنے کی قیمت بڑا مسئلہ ہے ، حکومت گنے کی قیمت مقرر کر تی ہے تو چینی کی قیمت بھی مقرر کرنی چاہئے ورنہ شوگر ملوں کو نقصان اٹھا ن ہو گا، چینی کی قیمت 52روپے کلو ہے اور اس حساب سے گنے کی قیمت خرید 140روپے بنتی ہے ، گنے کی قیمت کم نہ ہوئی تو ملیں نہیں چل سکیں گی ، سندھ میں ملیں چند دن چلنے کے بعد بند ہو گئیں پنجاب میں بھی بند ہو جائیں گی ، شوگر ملوں کے بوائلر چل چکے ہیں اور 15دسمبر تک تمام شوگر ملیں چالو ہو جائیں گی ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ چینی پر 6.60روپے کلو ایکسپورٹ سبسڈی دے گی حکو مت کے ذمہ ملوں کے 16ارب روپے کے بقایا جات ہیں، سندھ اور پنجاب حکومت نے سبسڈی مد میں 13.6 ارب روپے 31دسمبر اور ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 3.6ارب روپے بقایا جات فروری میں ادا کرنے کے وعدے کئے ہیں جس کے بعد ملیں چالو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری نے کہا ہے کہ شوگر مل مالکان کے جائز مطالبات مان لئے ہیں اور رواں ہفتے شوگر ملیں گنے کی کرشنگ شروع کر دیں گی ، گنے کی قیمت 180روپے من یقینی بنائیں گے، معاملات طے کرنے میں وزیر اعظم عمران خان، جہانگیر ترین اور وزیر اعلی عثمان بزدار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سمیع اللہ چودھری نے کہا کہ مل مالکان کو گنے کی کٹوتی اور ادائیگیوں میں تاخیر کی اجازت نہیں دیں گے اور اس مقصد کے لئے محکمہ خوراک متحرک کردار ادا کرے گا،مل مالکان کو گنے کے کسانوںکا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ،گزشتہ سال گنے کے کسانوں کوبقایا جات کی مد میں بیشتر رقم ادا کر دی گئی صرف ڈیڑھ ارب روپے کی ادائیگیاں باقی ہیں، جن کسانوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیں ہوئیں، ملوں میں موجود چینی کا سٹاک بیچ کر کسانوں کو ادائیگیاں کی جائیں گی۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین