• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو مارگلہ کی پہاڑیوں نے برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی ہے اور پورا ملک سرد موسم کی لپیٹ میں ہے مگر سیاسی موسم کی حدت سے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ واضح دکھائی دینے لگا ہے۔عام انتخابات سے قبل ہی ملک میں تیزی سے سیاسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل نے فقیدالمثال جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پیپلز پارٹی جو عام انتخابات میں سندھ کو بآسانی فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی اب سندھ کارڈ بھی اس کے ہاتھوں سے یوں نکل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ہنگامی صورتحال میں صدر زرداری نے دیرینہ دوست ذوالفقار مرزا کو فون کیا اور اندرون سندھ کے معاملات پر کافی دیر مشاورت کی اور انہیں اندرون سندھ میں پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کا ٹاسک سونپا ہے۔ اس صورتحال میں یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ سندھ میں دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد تشکیل دیا جارہا ہے،جس میں فنکشنل لیگ، جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں شامل ہوں گی اور پنجاب کی چیمپئن مسلم لیگ ن سرخیل ہو گی۔ فنکشنل لیگ سے میاں شریف کے صاحبزادوں کے تعلق کی بنیاد تو جنرل ضیاء نے ہی رکھ دی تھی مگر حالیہ اتحاد میں میاں شہباز شریف کے پرانے دوست مخدوم احمد محمود کا بہت اہم کردار ہے جبکہ بائیں بازو کی نمایاں جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی متحد ہوکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرچکی ہیں اور اس حوالے سے کراچی میں تمام نشستوں پر معاملات بھی طے ہوچکے ہیں اور حال ہی میں چند واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن کے بعد صدر زرداری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے کراچی کی وہ سات نشستیں جن پر پی پی اور ایم کیو ایم کا چار سالوں سے اختلاف چل رہا تھا اس پر پی پی کے موقف کو منوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل پنجاب میں مسلم لیگ ن نے چھ سیٹیں جیت کر سیاسی چھکا تو مارا ہے مگر اس میں پنجاب حکومت کی دخل اندازی ہرگز خارج ازامکان نہیں کیونکہ انتخابات سے قبل جس انداز میں ضلعی افسران کو تبدیل کیا گیا اور دھاندلی کا تاثر دیا گیا۔ اس سے مسلم لیگ ن کی ساکھ اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے میرٹ اور صرف میرٹ کے دعوے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جن حلقوں سے مسلم لیگی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اس سے ان کی کامیابی یقینی تھی مگر زیادہ مارجن کے چکر میں میاں شہباز شریف سے وہی غلطی ہوئی جو77ء کے عام انتخابات میں بھٹو صاحب نے کی تھی،پیپلز پارٹی کے مضبوط حلقوں سے بلاوجہ مخالف امیدواروں کو ڈرا کر اپنے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرایا اور پورا انتخابی نتیجہ متنازع بنا دیا، یہی خادم اعلیٰ پنجاب نے کیا ہے۔ افسران کو اس حد تک دباوٴ دیا گیا کہ ڈی پی او ساہیوال تو خود ہی چھٹی لے کر چلے گئے ،ڈی پی او نارووال کی جانب سے احکامات نہ ماننے پر ان کو تبدیل کرنے کی سمری بھجوادی گئی مگر ضمنی انتخابات میں کامیابی کے باوجود مسلم لیگ ن کو عام انتخابات کے دوران پنجاب میں سخت مشکلات کا سامنا درپیش رہے گا۔ پنجاب کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی کمزور ہے، لودھراں، خانیوال، مظفرگڑھ سے مسلم لیگ ن کے پاس کوئی رکن اسمبلی نہیں ہے جبکہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور میں پارٹی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس ان علاقوں میں تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط امیدوار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف نے سردار ذوالفقار کھوسہ کو پیپلز پارٹی کے ناراض اراکین کو توڑنے کا ٹاسک سونپا ہے مگر ذوالفقار کھوسہ کے تو اپنے صاحبزادے سیف الدین پیپلز پارٹی میں جانے کیلئے پر تول رہے ہیں اور آیت اللہ درانی کے ذریعے پی پی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں، تو پہلے میاں نواز شریف پارٹی کے اندرونی تنازعات کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب میں مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ہے،پہلے مرحلے میں ضمنی انتخابات میں شکست اور اب تین اراکین اسمبلی کے استعفے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مستعفی ہونے والے تینوں اراکین اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے استعفی دیا ہے،سید گیلانی کا اس وقت پارٹی قیادت سے سخت اختلاف چل رہا ہے، منظور وٹو کی آمد سے بھی یوسف گیلانی صاحب خاصے مایوس ہیں، سید یوسف رضاگیلانی نے اپنا سیاسی وزن بڑھانے کیلئے جمیل شاہ ، نشاط ڈاھا اور بابر حسین کو استعفیٰ دینے کو کہا اور ملتانی سید کا تیر بہدف نسخہ اس قدر کارگر ثابت ہوا کہ استعفے کی خبروں کے چند گھنٹوں بعد ہی پارٹی قیادت نے یوسف رضا گیلانی کو ناراض اراکین کو منانے کا ٹاسک سونپ دیا، تینوں امیدوار خانیوال سے پہلی مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، خانیوال میں ڈاھا برادری کا تو ذاتی ووٹ ہے مگر باقی دونوں پیپلز پارٹی کی آبائی نشستیں تصور کی جاتی ہیں اور ہمیشہ پی پی کے نامزد امیدوار ہی یہاں سے کامیاب ہوتے ہیں،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2002ء کے عام انتخابات میں جو امیدوار یہاں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے2008ء میں انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا اور نئے امیدواروں کو آزمایا گیا، نتیجے میں سابق اراکین اسمبلی ہار گئے اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑنے والے تینوں امیدوار جیت گئے جبکہ عام انتخابات میں ان حلقوں میں ٹکٹیں بھی یوسف رضا گیلانی نے ہی تقسیم کی تھیں۔ اس لئے یہ سب گیم پارٹی کے اندر اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے کھیلا جارہا ہے اور ویسے بھی اس موقع پر استعفی دینے کا صرف ایک ہی نقصان ہے کہ دو ماہ کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ باقی تو فائدے ہی فائدے ہیں،اخبار کی شہ سرخیوں میں جگہ مل گئی،حلقے کے ناراض دھڑے مطمئن ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان عام انتخابات سے قبل اب خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے پابندی عائد کرچکا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری اگر سندھ کی طرح پنجاب کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو انہیں سب سے پہلے پارٹی کے اندرونی خلفشارکو دور کرنا چاہئے، منظور وٹو کو پارٹی کی صوبائی قیادت ملنے کے بعد پارٹی رہنماوٴں اور اراکین اسمبلی میں جو عدم اعتماد کی فضا بلند ہوئی ہے اسے دور کرنا ہوگا وگرنہ پیپلز پارٹی کے لئے عام انتخابات بہت خطرناک ثابت ہوں گے اور بعض حلقے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے اتحاد پر جو انگلیاں اٹھا رہے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔چوہدری برادران کے پاس اس وقت بھی پنجاب کے بعض حلقوں میں مضبوط امیدوار موجود ہیں جو بآسانی اپنی سیٹیں جیت سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی اس اتحاد سے بآسانی مسلم لیگی ووٹ بھی توڑ سکتی ہے ۔حاصل کلام یہ ہے کہ عام انتخابات میں اصل مقابلہ تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہوگا، تحریک انصاف صرف مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثر کرے گی۔ سونامی کوئی گدلے پانی کا نالہ بھی نہیں جیسا کہ مخالفین کہہ رہے ہیں اور ”انصافیوں“ کا یہ موٴقف بھی درست نہیں کہ سونامی سب کھلاڑیوں کو آؤٹ کر دے گا۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ خدا جانے مارچ آنے تک سیاسی موم کی اٹھان کیا ہو اور ہوا کا رُخ کیا ہو۔
تازہ ترین