• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: راجہ اکبر داد خان ۔۔۔لوٹن
آزاد کشمیر پورے کشمیر بلتستان کا ایک حصہ ہے، جہاں ڈھانچہ کے اعتبار سے ایک مکمل حکومت ہے، مگر اختیارات کا منبہ ایک عرصہ بعد بھی (حکومت پاکستان سے مستعار لئے گئے افسران) ہیں جو ریاست میں صبح و شام کے معاملات طے کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اپ ٹو ڈیٹ اپروچ حکومت آچکی ہے اور جہاں اس کی جدید اپروچ کو ہر صوبہ میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہاں تین ماہ گزر جانے کے بعد کشمیر حکومت کے حوالے سے حکومتی خاموشی کچھ کے لئے شاید اچھی خبر ہو، مگر بسیار کے لئے بڑے حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل نہ ہونا۔ بالآخر عوام الناس کے لئے اچھی خبر ہوتی ہے۔ راجہ فاروق حیدر نے جوش خطابت میں وزیراعظم عمران خان کے بارے میں جو کچھ چند ماہ قبل کہا، ایسی زبان استعمال کرنی اس مرتبہ کے قائد کے لئے ہرگز موزوں نہ تھی۔ دوسری طرف عمران حکومت نے نہ تو ان کے ذاتی حوالہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی ہیں اور نہ ہی حکومت غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کہیں نظر آتی ہیں۔ سیاست اور خاموشی دونوں اکٹھے نہیں چل سکتیں، مگر جہاں تقریباً ہر ممبر اسمبلی کسی نہ کسی عہدہ پر بٹھا دیا گیا ہو وہاں بغاوتوں کے ماحول نہیں بن پاتے۔ آزاد کشمیر میں ایسا ہی ماحول ہے۔ تاہم حکومت گرانے کی کوششوں کے ثبوت نہیں ہیں۔ ایسا رویہ پی ٹی آئی قیادت کی جمہوری روش کا عکاس ہے۔ پی پی والے اگر یہ کہتے ہیں کہ اس جماعت کی بنیاد مسئلہ کشمیر بنا تو عین درست محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ معاہدہ تاشقند پہ ایوب خان مرحوم اور بھٹو مرحوم کے درمیان اختلافات کا آغاز یہاں ہی سے ہوا اور اسی دورانیہ میں پی پی پی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان جب ایک کرکٹر کی حیثیت سے عروج پر تھے اور برطانیہ کے بڑے کرکٹ گرائونڈز پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتے تھے اور 1990-80ء کی دہائی میں ایسی پاکستان دوست روش نہ تھی۔ عمران خان زندہ باد کے نعرے اپنی جگہ تھے۔ اس پرکشش ماحول نے یقیناً ان کے دل میں بھی سیاست میں آکر کسی بڑے کام سے ہمکلام ہونے کے جذبے پیدا کیے ہوں گے جو بالآخر آج ان کے موجودہ منصب پہ پہنچنے کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کے ناموں کی بھاری اکثریت عمران ہے۔ برطانیہ میں بھی اس نام سے جڑے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اپنے برطانوی قیام کے دوران وزیراعظم اکثر امور پر زیادہ Vocal نہ رہے۔ وہ مناسب موقعوں پہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کو رد کرنے میں کبھی پیچھے نہ رہے۔ عمران70ء اور80ء کی دہائیوں میں احتجاجی تحریکوں کا حصہ بن کر شاید طارق علی سے بھی زیادہ شہرت کمالیتے، مگر وہ اس خاردار جنگل میں نہایت احتیاط سے آگے بڑھتے رہے۔ یقیناً اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کی ورلڈکپ ٹیم کے اعزاز میں دعوت کے موقع پر بھی برطانوی سفیر کے اس سوال نے کہ ’’کیا آپ سیاست میں آنا پسند کریں گے؟‘‘ نے انہیں حیران کردیا ہوگا۔ دیکھنے والے بھی کیا دور کی خبر رکھتے ہیں۔ عمران خان نے کئی بھارت مخالف مظاہروں میں بھی شرکت کی۔ وزیراعظم برطانیہ میں مقیم کشمیری کمیونٹی کو درپیش مسائل اور ہمارے سفارت خانہ کی ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کی روش سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ وزیراعظم بننے سے قبل وہ درجنوں تقاریر میں سفارت خانوں میں بہتری لانے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔ پاکستانی بیورو کریسی نے ان کے لئے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں، مگر انہیں عوام نے تبدیلی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اب عمل کروانا ان کا کام ہے۔ پی ٹی آئی کی ترقی میں کشمیری کمیونٹی کا بڑا کردار ہے، مگر ملازمتوں کے حوالے سے اس کمیونٹی کو اس کا جائز حصہ کسی شکل میں کبھی نہیں دیا گیا۔ برطانوی نوجوان مرد اور خواتین کے لئے ہر شعبہ میں کوٹا مقرر ہونا ایک منصفانہ عمل ہوگا۔ اس طرح ملک کے ساتھ کمیونٹی کے جڑنے کے زیادہ مواقع پیدا ہوسکیں گے۔ یہ کمیونٹی پاکستان کے لئے انڈے دینے والی مرغی ہے۔ اس کی دیکھ بھال ہونی چاہیے۔ نہ کہ ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں، جن سے اس کی محبت متاثر ہو اور بالآخر کہیں یہ Snap کرجائے۔ سفارت خانہ کے حوالے سے بھی ایک جامع حکمت عملی اختیار کی جانے کی ضرورت ہے، جہاں توجہ کا مرکز اپنی آبادی کے تمام حصے ہوں۔ نہ کہ بھونڈے قصیدہ گو ہوں۔ جو ہر نئے سفیر کی آمد پہ اپنے بینڈ باجے کے ساتھ لائونڈز سکوائر پہنچ کر اپنی کارروائیاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سفارت خانہ کو عوامی بنانے کے لئے کمیونٹی کے بڑے حصہ کو اس کے ساتھ جوڑنے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارت خانہ میں کمیونٹی ویلفیئر آفیسرز آزاد کشمیر ہیریٹچ کے لوگ ہونے چاہئیں اور اگر ایسے منصفانہ اقدامات نہیں اٹھتے تو ناراضگی کے گلے نہیں ہونے چاہئیں۔ یقیناً ایسے Confidence Building اقدامات پی ٹی آئی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس کے اپنےDNAمیں عوامی فلاح کا ایک مرکزی عنصر شامل ہے اور خان صاحب محترم جہاں بہتوں کے لئے رول ماڈل بنے چلے آرہے ہیں وہاں وہ آج وزیراعظم پاکستان بھی ہیں۔ ان کے دل میں اس کمیونٹی کے لئے ہمدردیاں موجود ہیں۔ اب عملی اقدامات کے ذریعے سابقہ ناانصافیوں کی تلافی ہوجانی چاہیے۔ ایسے اقدامات سے پاکستان مزید مضبوط ہوگا۔ آزاد کشمیر حکومت کیونکہ اپنے بیشتر مالی اخراجات کے لئے حکومت پاکستان کی محتاج ہے۔ اس لئے یہاں بھی انتخابات پاکستانی انتخابات کے ساتھ کروا دینے کی بات ایک نہایت معقول تجویز ہے۔ کشمیری انتخابات کبھی منصفانہ آزادانہ نہیں رہے، کیونکہ مرکزی حکومتوں کی براہ راست دخل اندازی ہمیشہ مرکز میں برسراقتدار جماعت کو آزاد کشمیر میں بھی اقتدار میں لے آتی ہے۔ پچھلے انتخابات میں اپوزیشن کی شکست ایسا ہی ایک واضح ثبوت ہے، وہاں اپوزیشن بھی15-10سیٹیں نکال سکتی تھی۔ حکومت سازی میں جموں و کشمیر مہاجرین آباد پاکستان کی10سیٹیں بھی بھتہ خوری کی ایک مثال ہے۔ یہ تمام مہاجرین پاکستانی انتخابات میں بھی حصہ لے کر اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں اور دہرے مزے لینے آزاد کشمیر میں نوکریاں اور وزارتیں لینے بھی آ دھمکتے ہیں۔ یہ بھی ایک توجہ طلب معاملہ ہے۔ مولانا کی چیئرمین شپ میں کشمیر کمیٹی کو جس طرح پچھلے پندرہ برسوں میں ذلیل و کوار کیا گیا ہے دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں مل سکتی۔ نئے وزیر امور کشمیر کے متعلق کچھ کہنا آج قبل از وقت ہے۔ وہ بھی وزیراعظم محترم کے معتمدین میں شمار کئے جاسکتے ہیں، مگر ہیں وہ بھی ناتجربہ کار۔ انہیں مسئلہ کشمیر پہ یورپی کشمیری آوازوں کو اکٹھا کرنے میں ایک مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے۔ جن میں برطانیہ اور یورپ میں کام کرتی متحرک تنظیموں کے جانے مانے لوگوں کی رائے کو شامل کرتے ہوئے ایسی پالیسی مرتب کی جائے جو اس مسئلہ کے حل میں مددگار ثابت ہوسکے اور اس سارے عمل کو مختلف ممالک میں کم از کم دو روزہ سیمینارز کے ذریعہ آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین