• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیک کام کی ابتدا جب بھی ہو اسے سراہا جاناچاہئے۔ کوئی اچھی اور بہتر رائے ہو تو دی جائے لیکن اس میں مین میخ نکالنے سے احتراز لازم ہے۔ اسے ایک اہم اور خوش آئند پیش رفت ہی قرار دیاجائے گا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے فاٹا سیکرٹریٹ ختم کرتے ہوئے قبائلی اضلاع میں آئندہ سال اپریل یا مئی میں صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔ یہ فیصلہ گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کی زیرصدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ محمود خان، کور کمانڈر شاہین مظہر سمیت متعلقہ شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں قبائلی علاقوں کے لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کو پولیس میںشامل کرکے ان کی تنخواہوں میں 18ہزار روپے تک اضافے، 30ہزار نئے پولیس جوان بھرتی کرنے، درہ آدم خیل کے اسلحہ کارخانوں پر توجہ دینے، سی پیک منصوبے میں قبائلی اضلاع کیلئے کوٹہ مختص کرنے، اسکولوں اوراسپتالوںکی کمی دورکرنے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے آئندہ بجٹ صوبائی اسمبلی میںپیش کرنے کے اہم فیصلے بھی کئے گئے۔ مئی 2018میں قومی اسمبلی نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے 31ویں آئینی ترمیم کی تو اسے پورے ملک میں سراہا گیا۔ اس لئے کہ قریباً ساڑھے 27ہزارمربع میل پر مشتمل اس علاقے میں انگریز دور یعنی 1848میں برطانوی راج کا نافذ کردہ ایف سی آر (فرنٹیئر کرائم ریگولیشن) قانون نافذ تھا جس کے تحت کسی بھی قبائلی کو بغیروجہ بتائے گرفتار کیاجاسکتا تھا اور اسے کسی وکیل، دلیل اور اپیل کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ حقوق کے جائز مطالبے کو صرف ِ نظر کیا جائے تو نفرت، تشدد کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ بلاشبہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے اور اب خیبرپختونخوا حکومت کے اقدامات سے اس وسیع علاقے کو نہ صرف بنیادی حقوق فراہم ہوں گےبلکہ قومی دھارے میں شامل ہوکر اس علاقے کے مکین ملک کی سلامتی، خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ لازم ہے کہ اس سلسلے میں تمام امور کو بخیرو و خوبی انجام تک پہنچانے میں حزم و احتیاط کے ساتھ ساتھ قومی جذبے سے کام لیا جائے۔

تازہ ترین