• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات ہے مجھے تو قائد تحریک الطاف حسین کا خصوصی اور ہنگامی بیان بہت پسند آیا جس میں انہوں نے اپنے کارکنوں کوعدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی اور ہنگامہ آرائی بند، تمام احتجاجی مظاہرے منسوخ اور 7 جنوری کو سپریم کورٹ نہ جانے کی تلقین کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ عدالتوں کا وقار مجروح اور تقدس پامال ہو۔
عدالت عظمیٰ سے تصادم کا نتیجہ پیپلز پارٹی نے بھگت لیا۔ یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمیٰ گنوائی اور راجہ پرویز اشرف کو بالآخر خط لکھنا پڑا۔ محاذ آرائی میں الجھ کر وہ ساڑھے چار سال تک ڈھنگ کا کوئی کام نہ کرسکی۔بعض قوتیں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو بھی عدالت عظمیٰ سے الجھا کر پورے ملک میں یہ تاثر پختہ کرنا چاہتی تھیں کہ سندھ کے باشعور شہری باشندوں کی نمائندہ یہ جماعت اپنے آپ کو قانون سے بالاتر، توہین عدالت کو جائز اور توہین الطاف کو جرم سمجھتی ہے، اسے کراچی کے امن سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ آئین کی بالادستی ، قانونی کی حکمرانی اور عوامی حقوق کی پاسداری کے لئے فعال آزاد عدلیہ کو کمزور کرنے کی راہ پر گامزن ہے مگر الطاف حسین نے ایک ہی بیان سے اپنے سیاسی و نظریاتی مخالفین کو ششدر کردیا ہے اور سازشی عناصر کی تدبیر ناکام بنا دی ہے شاید وہ اپنی عوامی قوت اور لسانی و نسلی عصبیت کو اندرون سندھ بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
حیدر آباد میں پیر صاحب پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ راشدی کے عدیم النظیر سیاسی اجتماع نے سندھ کارڈ کے علمبرداروں کو پریشان کردیا ہے۔ پیر صاحب کے والد زندگی بھر جی ایچ کیو سے وابستگی پر فخر کرتے رہے جبکہ دادا سید صبغت اللہ شاہ شہید کی شہرت ایک باغی کی تھی انگریزوں نے مارشل لاء نافذ کرکے انہیں گرفتار کیا اور حر جماعت پر مظالم توڑے اگر موجودہ پیر پگاڑا اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم لیگوں کے انضمام اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے گناہ بے لذت پر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے مفلوک الحال سندھی عوام کی سماجی و معاشی محرومیاں دور کرنے پرتوجہ دیں اور عصری تقاضوں کا ادراک کریں جبکہ الطاف حسین ابتدائی دور کی حریت پسند ایم کیو ایم کا احیاء کرکے ان تمام عناصر سے مکمل اظہار لاتعلقی کریں، انہیں ایم کیو ایم کی صفوں سے خارج کریں جن کے دامن آلودہ اور ہاتھوں پر خون کے چھینٹے ہیں تو سندھ امن کا گہوارہ اور کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں مخالفین بھی ماضی کو دفن کرکے مستقبل کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
ان دنوں ملک میں موجودہ گلے سڑے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے سے نفرت عروج پر ہے اور پائیدار و ثمر بار حقیقی تبدیلی کی خواہش شدید۔ نوجوان تبدیلی سے کم پر کسی صورت راضی نہیں۔ گزشتہ روز قذافی سٹیڈیم کے کلچرل کمپلیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نوجوانوں کو انقلابی نعروں سے گرما اور کرپشن کے خلاف آمادہٴ پیکار کر رہے تھے تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ اس ”اسلامی سوشلسٹ“ کو اصلاحات اور تبدیلی نہ ہونے کی صورت میں خونی انقلاب کی چاپ سنائی دے رہی ہے مگر ان کی جماعت غلام عباس اور بریگیڈئر اعجاز شاہ جیسے چلے ہوئے کارتوس اپنے اسلحہ خانے میں جمع کرکے پاکستان کو بدلنے کے درپے ہے۔
سٹیٹس کو کی قوتوں کا باہم شیر و شکر ہونا اس خوف کا نتیجہ ہے جس میں تبدیلی کے نعروں نے، نوجوانوں کی بیداری نے اور قوم کی موجودہ خونخوار نظام سے بیزاری نے انہیں مبتلا کر دیاہے کوئی عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے، کسی کو علامہ طاہر القادری کے ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ کے نعرے سے مکروہ نظام کے انہدام کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے اور کوئی الطاف حسین کے تازہ بیان پر حیران ہے مگر کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ موجودہ نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر جمہوریت کا لیبل لگا کر ہم کب تک تباہی و بربادی کے اس طوفان کو روک سکتے ہیں۔ جو برسوں کی عافیت کوشی اور سہل پسندی کی وجہ سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ کیکر کے درخت اگاکر خوش ذائقہ شیریں آم کھانے کی خواہش میں مبتلا یہ لوگ خود تو احمق ہیں پوری قوم کو احمقوں کی جنت بسائے رکھنے پرمجبور کر رہے ہیں مگر کب تک؟
اگر عدلیہ کی بے مثل فعالیت، فوجی قیادت کی سیاسی نظام میں عدم مداخلت، عمران خان کی مجنونانہ بھاگ دوڑ، الطاف حسین کی طرف سے عدالتی احترام کی یقین دہانی،پیر پگاڑا کے خلاف توقع سیاسی و عوامی رابطوں اور علامہ طاہر القادری کی وطن واپسی میں کوئی تامل میل ہے تو پھر سمجھو تبدیلی آئی کہ آئی ہاں مگر قوم نے ابھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ صدیوں سے خون چوسنے، وسائل لوٹنے، وفاداریاں بدلنے، قومی مفادات بیچنے والے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، مخدوموں، ملکوں اور زبان، نسل، علاقے اور مسلک کے تعصبات کا پرچار کرنے والوں کو دھتکار کر تبدیلی کے علمبرداروں پر ووٹ کی پرچی وار کر یہ قوم اپنی اور اپنی اگلی نسلوں کی قسمت سنوار سکتی ہے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے
سچی بات ہے مجھے الطاف بھائی نے پینترا بدل کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
تازہ ترین