• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اسمٰعیل گُل جی‘‘ دنیائے مصوری کا چمکدار اور روشن ’’رنگ‘‘

رنگوں کے استاد ’’گل جی‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، گل جی کی زندگی کا مختصر مطالعہ جب موضوع تحریر کے طور پر منتخب کیا گیاتو دل میں خیال گزرا کہ کیوں نہ گل جی کے حوالے سےمصوری کے اساتذہ سے لی گئی رائے کومضمون کا حصہ بنایا جائے؟اس خیال کی تعبیر کی صورت مصوری کے ایک استاد نےگل جی کی زندگی اور ان کے فن کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا وہ کچھ یوں ہے’’ایک ایسا مصور جسے ہزاروں کے مجمعے میں بھی دور سے پہچان لیاجائے،ایک ایسا فنکا ر جس کی تخلیقات جدت اور فن کا ایسا سنہری باب ثابت ہوںجنہیں دیکھ کر ناظرہر بارخوشی سے جھوم اٹھے،،ایک ایسا مصور جو جانے کے بعد پرستاروں کے دلوں میں چمکدار رنگوں کی طرح ہمیشہ زندہ رہےگل جی کچھ ایسے ہی تھے ۔‘‘

عالمی شہرت یافتہ مصور گل جی کو آج ہم سے بچھڑے11 سال بیت گئے ہیں،گیارہ سال قبل ایک ایسی ہی صبح مصوری کے افق پر چمکتے ستارے (گل جی )کے ٹوٹنے کی خبر لے کر نمودار ہوئی ۔جب گل جی کے ملازموں کے روپ میں چھپے قاتلوں نےبوٹ بیسن کے علاقے کلفٹن بلاک 3 میں واقع ان کے ذاتی بنگلےمیں ان کے منہ پر دوپٹہ باندھ کر چھریوں کے وار سے گل جی سمیت ان کی اہلیہ اور گھریلو ملازمہ کو قتل کردیا ،اس قتل کی خبر بھی 3دن بعدگل جی کے صاحبزادے امین گل جی نے پولیس کو دی ۔قاتل بہرکیف انجام کوکئی سال بعد سہی انجام تک پہنچادیے گئے۔ ’’عبدالحمید اسماعیلی‘‘ جنہیں دنیائے مصوری میں رنگوںکے استاد اور’’ گل جی ‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں 25اکتوبر 1926کو پیدا ہوئے ،گل جی کی مصوری سے متعلق خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی مصوری کی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہ کی ان کا شمار Self thaught Artistsمیں ہوتا ہے۔ گل جی نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم، والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حاصل کی جبکہ مصوری کا مزاج اپنے دادا کا اپنایا۔ ان کے دادا واٹر کلر پینٹ آرٹسٹ تھے۔ ان کے والد خود ایک انجینئر تھے لہٰذا گل جی کے لیے تعلیمی منصوبہ بندی کے طور پر انجینئرنگ کا انتخاب کیاگیا ،گل جی نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز کیا ۔وہ ایک ذہین طالب علم تھے۔ لہٰذا والد کی وفات کے بعد بھی مشکل معاشی حالات ان کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے اسکالر شپ سے نوازا گیا ،اسکالر شپ ملنے کے بعد گل جی امریکا چلے گئے ، کولمبیا یونیورسٹی سے ہائیڈرالکس انجینئرنگ میں ایم ایس سی جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی سے سائل میکینیکس میں ایم ایس سی کیا۔

دوران تعلیم بھی گل جی کی توجہ کا مرکز ان کا فن اور پینٹنگ برش رہتا۔انھیں ایسا محسوس ہوتا کہ رات کی تاریکی کا پس منظر انھیں کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ان کا فن ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس تاریکی میں گل جی نے ایسے حیران کن فن پارے تخلیقی کیے کہ ہر پہلی نگاہ جھپکنا بھول جاتی تھی۔

اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد جب اسمٰعیل گل جی پاکستان لوٹے تو اوٹاواسفارت خانے میں سیکریٹری کی حیثیت سے شمولیت اختیار کرلی۔ اور اسی سال 1950میں گل جی کی پہلی نمائش منعقد کی گئی۔ اس نمائش کے بعد گل نے اس مشغلہ کو ہی اپنا پیشہ بنالیا اور یہی پیشہ دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنا ۔

افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے کراچی دورے کے دوران گل جی سے اپنا پورٹریٹ بنانے کی درخواست کی،اس پورٹریٹ کے ذریعے ظاہر شاہ گل جی کے فن سے اس قدر مسحورہوئے کہ انھیں پورے شاہی خاندان کے افراد کے پورٹریٹ بنانے کیلئے افغانستان آنے کی دعوت دی ۔کابل دورے کے دوران گل جی نے Non Figurative Art کی پہلی نمائش کا انعقاد کیا ۔ اس نمائش میں گل جی نےاپنی 151پینٹنگ پیش کی جب کہ نمائش کی صدارت کا فریضہ امریکی سفیر نے اداکیا۔ اس کے بعد انھوں نے پرنس کریم آغا خان چہارم ، ایران کی ملکہ فرح ،سلطان محمد شاہ ،سعودی عرب کے شاہ فیصل، صدر رونلڈ ریگن، ذوالفقار علی بھٹوا ور صدر ایوب خان جیسی نامور شخصیات کے پورٹریٹ بھی بنائے۔

یہ سلسلہ 1967تک جاری رہا۔ اس کے بعد انھوں نے اسلامی خطاطی کی جانب توجہ مبذول کرلی اورکانسی،چاندی اور سونے سے ایسے مجسمے تخلیق کیے کہ دیکھنے والے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ان کے تخلیق کیے گئے فن پارے آج بھی پاکستان کی مشہور عمارات فیصل مسجد اور پارلیمینٹ ہاؤس کی زینت بنے ہوئے ہیں۔فن خطاطی کے علاوہ گل جی موزیک اسٹائل میں( فیروزہ، زمرد اور سنگِ مرمر سے تیارہ کردہ ) قدرتی منظر اور پورٹریٹ بنانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

گل جی ایبسٹریکٹ آرٹسٹ یا ایکشن پینٹرکے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

گل جی کو ان کی بے شمار خدمات کے سبب حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس ، ہلال امتیاز اور دو بار ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ 

تازہ ترین