• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طویل عرصہ بعد چند روزہ دورے پر پاکستان آیا تو لاہور کافی بدلا بدلا سا محسوس ہوا یہاں پر ایک ہفتہ گزار کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حکومت پنجاب نے عوام کو چند ایسی بے مثل سہولتیں عطا کر رکھی ہیں جو مشرف دور میں نہ ہونے کے مترادف تھیں ۔ انکی تفصیل شمار کرنے بیٹھا تو پھر ایک نہیں دس عدد ڈائریاں لکھنی پڑیں گی چنانچہ انتہائی اختصار کے ساتھ چند سہولتوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔
گداگروں کی جنت
اگر لاہور کو گداگروں کی جنت کہا جائے تو ایسا بے محل نہ ہو گا کیونکہ یہاں آپ کو ہر رنگ ،نسل ، عمر، حتیٰ کہ ہر جنس کا بھکاری بکثرت ملے گا اب آپ کو اپنی نیک کمائی میں سے صدقہ و خیرات کرنے کے لئے بھکاریوں اور مستحقین کی تلاش میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا موجودہ حکومت نے خالص انسانی جذبے کے تحت یہ سہولت اب آپ کی دہلیز تک پہنچا دی ہے ۔ آپ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی جن چار پانچ ملاقاتی نما بزرگوں سے شرف ملاقات حاصل کرتے ہیں وہ عام طور پر سب کے سب بالاخر فقیر ہی نکلتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے یہ احباب آپ کے گیٹ یا گلی میں نظر نہ آئیں تو مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ گلی کا موڑ مڑتے ہی باہربڑی سڑک ہے اور قدرت نے لاہور کی تمام بڑی سڑکوں کو بھکاریوں، وائپروں اور کھسروں کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ۔ آپ اطمینان کے ساتھ چلتی ٹریفک کو روک کر کھڑکی نیچے کریں اور کوئی بھی اچھا سا فقیر یا مناسب سا کھسرا منتخب کرکے اسے دس بیس روپے دے کر ثواب دارین کمالیں ۔ ٹریفک پولیس والا اگر شور مچائے تو اس پر لعنت بھیجیں کیونکہ حکومت پنجاب بھی اس احمق کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتی ہے ۔
البتہ اگر آپ کا دل کہیں کم عمر بھکاری کو خیرات دینے کے لئے مچلنے لگے تو آپ کو تھوڑا تردد کرنا ہو گا کیونکہ مشرف دور کے ایک کالے قانون نے ان کمینوں کو بھیک مانگنے سے منع کر رکھا ہے ۔ تاہم ان کے خدا ترس پرموٹروں اور ٹھیکیداروں نے اس قانون کا احترام کرتے ہوئے ان بچوں کے پھو ل جیسے ہاتھوں میں شیشے صاف کرنے والے وائپر، دانت صاف کرنے والے مسواک اور جیبیں صاف کرنے والے بلیڈ وغیرہ تھما کر انہیں ان کے قدموں پر کھڑا کر دیا ہے تاکہ کل کلاں یہ نونہال کسی پر بوجھ نہ بنیں ۔ بہرحال ہیں یہ بھی بھیک منگے ہی ، بس انکے ہاتھ میں مذکورہ چیزیں پکڑا کر ان میں تھوڑا پروفیشنل ٹچ دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مشرف کے سیاہ دور میں اس قسم کی سہولتیں نصیب نہیں تھیں ، نہ شہریوں کو اور نہ ہی بھکاریوں کو، اسی وجہ سے اس ظالم کا انجام اس قدر درد ناک تھا ،ہیں جی ؟
اوورلوڈنگ کی سہولت :ڈیزل کی روز افزوں بڑھتی قیمتوں اور کمر توڑ مہنگائی کے بعد یہاں اشیاء کی ترسیل بے حد مشکل ہو چکی ہے ۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرکے بھی موجودہ حکومت پنجاب نے عوام کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دیئے ہیں ۔ جس طرح ”بوفے ڈنر “ میں کھانے کی مقدار مقرر نہیں ہوتی اور آپ ایک طے شدہ رقم ادا کرکے جتنا جی چاہے کھا سکتے ہیں، بالکل اسی طرح آپ متعلقہ پولیس کو ایک طے شدہ رقم ادا کرکے ٹرالی پر جتنا جی چاہے مال لاد سکتے ہیں کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا ۔ میں تقریباً تمام براعظم گھوم چکا ہوں مگر اس قسم کی عوام دوست سہولت میں نے آج تک کسی اور ملک میں نہیں دیکھی، نہ صرف یہ بلکہ اس حجم والی پہاڑ نما ٹرالیاں بھی میں نے صرف پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوصی دیکھی ہیں۔ بعض اوقات تو ٹرالی کا حجم اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ کاروں ، موٹروں والے کئی کئی کلو میٹر تک چیونٹی کی رفتار سے ٹرالی کے پیچھے یوں رینگتے ہیں جیسے کسی جہازی بطخ کے پیچھے اس کے بچے چلتے ہیں ۔ قیمتی موٹر کاروں والے اکثر شیشہ نیچے کرکے ٹرالی ڈرائیور، مالکان اور اس کے اہل خاندان پر مغلظات کی بوچھاڑ کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ٹریکٹر ٹرالی کی عبرتناک آواز کے سبب تو انسان کو ایٹمی حملے کی خبر بھی اگلے روز ہوتی ہے ۔ یہ چھچھورے امیر لوگ کیا بیچتے ہیں بھلا ہیں جی ؟لاؤڈسپیکر کا آزادانہ استعمال لاہور کے مضافاتی علاقوں اور قصبوں کا دورہ کرکے مجھے بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ اس صوبے کے غیور عوام واقعی آزادی کی نعمت سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ان علاقوں کی وہ مساجد کہ جنکی تعمیر ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہتی نظر آتی ہے ، صبح، دوپہر، شام ، لاؤڈسپیکر پر چندہ مانگ مانگ کر اہل محلہ کا ایمان تازہ کرتی رہتی ہیں۔ ان مساجد کے ساتھ ملحقہ مدرسوں کے انچارج مولوی صاحبان ننھے منے طلباء کو چندہ اکٹھا کرنے کا ٹاسک یوں سونپتے ہیں جیسے ٹریفک پولیس کو ایک خاص تعداد میں چالان کرنے کا ٹاسک سونپا جاتا ہے ۔ مستقبل کے یہ معمار اپنی توتلی اور نوخیز زبان میں نعتیہ و حمدیہ کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ حسب توفیق چندہ بھی مانگتے ہیں اور یہ کام عموماً انتہائی دردناک لہجے میں بھی کرتے پائے جاتے ہیں ۔اس کام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سفید پوش مانگتوں کی ایک فوج ظفر موج از خود تیار ہوتی چلی جاتی ہے جیسے آئی ایم ایف سمیت ہر بین الاقوامی ساہوکار کے ساتھ معاملہ بندی کرنے میں قطعاً ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی ۔تاریخ گواہ ہے کہ مشرف کے سیاہ دور میں اس سہولت بارے سوچنا بھی محال تھا بلکہ اس عہد زیاں میں تو لاؤڈسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گاؤں میں بیچارے بے زبان مولویوں کو ناحق پریشان کیا جاتا تھا ۔ تاہم اہل پنجاب کو اس بات پر اپنی حکومت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے دیگر سہولتوں کے ساتھ ساتھ لاؤڈ سپیکر کے بے دریغ استعمال کی اجازت دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی کس قدر بڑی علمبردار ہے ۔ البتہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض عاقبت نااندیش علاقہ ایس ایچ او بیچارے مولوی صاحبان کی اس کمائی میں سے بھی حصہ مانگتے ہیں جو کہ سراسر زیادتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس حوالے سے بھی تھوڑی تحقیقات کرنی چاہئے، ہیں جی ؟
تازہ ترین