• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی طرف سے قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) کاچیئرمین بنانے کےاپویشن کے مطالبے کوتسلیم کرنا ایک احسن عمل ہے کہ اس کےبعد قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل پرجاری ڈیڈ لاک بھی ختم ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان میں کہا کہ وزیراعظم نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ تسلیم کیا۔ ہمیں اس معاملے کوضد اور انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے آگے بڑھنا چاہئے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسے عمران خان کے مثبت اور اچھے یوٹرن سے تعبیر کیا۔ شہباز شریف نے کہا حکومت ایک قدم آگے بڑھے ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کاکہنا تھا کہ ہمیں افہام و تفہیم سے آگے چلنا چاہئے۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کوبرداشت کرنا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔ اسپیکر اسد قیصر نے کہا اس معاملے پروزارت ِ قانون اور اٹارنی جنرل سے رائے لوںگا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ہائوس پر داغ نہیں آنے دوں گا۔ کوئی شک نہیں کہ مقاصد عظیم اور عزائم صالح ہوں تو اَنااور ضد کی بجائے مصالحت کی راہ پرچلنا ہی بہترین عمل ہوتا ہے۔ خاص طورپر اس وقت جبکہ پاکستان بے شمار اندرونی وبیرونی بحرانوں سے نبردآزما ہے کسی بھی جانب سے روا رکھی جانے والی ہٹ دھرمی ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہی قراردی جائےگی۔ قائد حزب اختلاف کوچیئرمین پی اے سی مقررکرنے کےمطالبے کا تسلیم کیاجانا اس امر پر دلالت کرتاہے کہ حکومت نہ صرف مصالحانہ رویہ رکھتی ہے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بھی خواہاں ہے۔ حکومت کایہ عمل ایک اچھی روایت ہے ورنہ اب تک یہی ہوتاآیاہے کہ روزِ اول سے ہی اپوزیشن نے حکومت کوگرانے یا بہرطور اس کی مخالفت کرنے کو اپنا فریضہ خیال کیا تو حکومت نے من مانی کواپناحق۔ یوں کھینچا تانی جاری رہی اور نقصان ملک وقوم کاہوا۔حکومتوں نے عہدے بھی اپنی اتحادی جماعتوں کو دیئے، بساا وقات ایساکرنا ان کی مجبوری رہی کہ بصورت دیگر انہیں اکثریت کھونے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ یہ بات سب کویاد رکھنا چاہئے کہ ایوان میں جوبھی پہنچا ہے عوامی تائید سے پہنچا ہےاورعوام کی تائید ہی جمہوریت کی روح ہے۔ چنانچہ کسی بھی اسمبلی ممبر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانےمیں، خواہ اس کا تعلق اپوزیشن سے ہی کیوں نہ ہو، قوم کافائدہ ہی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹیوں کا معاملہ ایک عرصہ سے ڈیڈلاک کاشکار تھا، جس پر حکومت کوتنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرنے سے حکومت کو نیک نامی ملی ہے۔ مصالحت کی طرف اس حکومتی پیش رفت کو بجاطور پرسراہا جانا چاہئے کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ آگے چل کر حالات مزید بہتر ہوسکتے ہیں۔ملک و قوم کے لئے قانون سازی کی جائے گی اوربعید نہیں کہ معاشی اور دیگر بحرانوں سے نمٹنے کےلئے بھی اپوزیشن حکومت کاساتھ دے کہ بات محض حکومت کی نہیں ملک کی ہے جوکسی ایک جماعت کانہیں ہم سب کا ہے۔ایوان میں میاں شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی مقررکرنے کے بعد حزب ِ اقتدار اور حزب ِ اختلاف کی طرف سے جو خوشگوار عزائم سامنے آئے لائق تحسین ہیں تاہم خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پرواک آئوٹ اس لئے سوالیہ نشان بنتا ہے کہ اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی نے وضاحت اور یقین دہانی بھی کرادی ہے۔ سیاستدانوں کو یہ نہیںبھولناچاہئے کہ وہ جس ایوان میں براجمان ہیں وہ تمام ریاستی اداروں پر فائق ہے اور معاملات تبھی خراب ہوتے ہیں جب انہیں ایوان میں حل کرنے کی بجائے کوئی دوسری راہ اپنائی جائے۔ مقننہ کی مضبوطی اور بالادستی اسی میں مضمر ہے کہ وہ معاملات خود حل کرے۔ جس طرح یہ معاملہ حل کرکے ایک مصالحانہ ماحول پیدا کرنے میں حکومت نے پہل کی ہے۔ امید ہے کہ حزب ِ اختلاف بھی اپنے کہے کی لاج رکھتے ہوئے افہام و تفہیم کی تعمیری سیاست کو فروغ دے گی۔

تازہ ترین