• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی میں حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ہر سال پانچ لاکھ 25ہزار ٹی بی کے نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان اس مرض سے شدید متاثرہ 30ملکوں میں پانچویں نمبر پر ہے جو ایک المیہ سے کم نہیں۔ ٹی بی نہایت خاموشی کے ساتھ ایک سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والا اذیت ناک مرض ہے اور عدم ا ٓگاہی کی وجہ سے مریض بہت دیر بعد اس کی تشخیص پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ قابل علاج ہے تپ دق عموماً پھیپھڑوں میں لاحق ہوتا ہے تاہم بعض حالات میں یہ جسم کے کسی بھی حصے میں نمودار ہو سکتا ہے، غربت، تنگ وتاریک ماحول، غذائیت اور پروٹین کی کمی اس کے اسباب ہیں، ان حالات میں سگریٹ نوشی جلتی پر تیل کا کام دیتی ہے۔ پاکستان میں ا ٓبادی کا40فیصد حصہ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یہ افراد عموماً ایک ہی کمرے کے غیر ہوا دار گھروں میں پورے کنبے کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ شدید سرد علاقوں یا بارش طوفان کی صورت میں بھیڑ بکریاں بھی وہیں باندھی جاتی ہیں۔ یہ صورت حال سب سے زیادہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ وپنجاب کے دور افتادہ دیہی علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ دشوار گزار اور طویل فاصلوں کی بنا پر عموماً صحت کی سہولتیں ان کے گھروں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ وطن عزیز کو یہ حالات اگرچہ اس کے قیام سے پہلے ہی سے درپیش ہیں لیکن ان 71برسوں میں اس مرض پر قابو نہ پانا معنی خیز بات ہے۔ جن ملکوں نے ٹی بی پر قابو پایا ہےیا اس کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی ہے اس کی بڑی وجہ صحت کی ٹیموں اور ٹی بی سے متعلق مراکز صحت کا ان کے گھروں کے قریب قیام پذیر ہونا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی ایسے مقامات پر ٹی بی کے علاج معالجہ کے لئے مخصوص تشخیصی اور علاج کے مراکز قائم کرنے چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر لوگوں میں اس کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین