• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
ہر عیسوی سال کے اختتام پر دسمبر کا مہینہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یادیں بھی قلب و ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں دو دفعہ دسمبر کی ایسی 16 تاریخ آئی جو صدیوں بھی نہ بھلائی جا سکے گی۔ 1971 کے دسمبر کی 16 تاریخ نے وطن عزیز پاکستان کو دو لخت کیا اور مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ وہ مشرقی پاکستان جہاں سے تحریک پاکستان اپنی پوری آب و تاب سے چلی اور وہاں کے باسیوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا زخم ہے جو تا دیر نہیں بھر سکے گا۔ اس سانحہ کا پس منظر یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کوتسلیم نہیں کیااورہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہا کہ پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کردے ۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نےکہا تھا کہ "مسلمانوں نے ہزار سال تک ہمیں غلام بنائے رکھا اور آج ہم نے ان سے بدلہ چکایا ہے۔ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں پھینک دیا ہے"۔ پاکستان کو دولخت کرنے پربنگلہ دیش کی حکومت نے2012ء میں آنجہانی اندرا گاندھی کو "فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار" ایوارڈ دیا۔ 2016ء میں یہی ایوارڈ بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم واجپائی کوبھی میں دیاگیا تھا۔ جسے بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وصول کیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ انداز میں سر عام اعتراف کیا کہ پاکستان کوتوڑنے میں بھارت ملوث تھا۔ 16نومبر 2009ء کوبنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے بھی کہا تھاکہ "وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ قیام پذیر تھیں جہاں شیخ مجیب الرحمن نے "را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی خفیہ حکمت عملی طے کی تھی۔ بھارت تو پاکستان سے دیرینہ عداوت کی بناء پر سازشیں کرتا ہی رہا لیکن افسوسناک امر یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی ضروری مسائل کو حل کرنے میں کوتاہیاں برتیں۔ ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے جس الجھاؤ کو سلجھانا ضروری تھا اسے اہمیت تک نہیں دی۔ ایسے ہی حالات میں بھارت کو موقع مل گیا اور ان مسائل کو بنیادبناکر مشرقی پاکستان کے عوام کو گمراہ کرناشروع کیا۔ سقوط ڈھاکہ کوئی حادثاتی عمل یا واقعہ نہیں تھا بلکہ طویل عرصے کی سیاسی کوتاہیوں اور حکمت و بصیرت سے عاری فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ سیاستدانوں کی بے اعتنائیوں اور مغربی پاکستان کے روکھے رویوں کی وجہ سے جنم لینے والی غلط فہمیوں نے بالآخر احساس محرومی کا روپ دھار لیا اور اغیار نے انہیں ہوا دے کر نفرتیں پھیلائیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں یہ سانحہ دیکھنا پڑا۔ آج کے پاکستان میں ضروری ہے کہ ہم اپنی سابقہ غلطیوں کا جائزہ لیں کہ ملک کے اشتعال زدہ علاقوں کے معاملات میں کہیں ہم غفلت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ اب بھی ان علاقوں میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں اور وہاں آئے روز ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے مل رہے ہیں۔ بھارتی حکمران اور ذمہ داران کئی مواقع پر پاکستان کو سندھ کارڈ اور بلوچستان کارڈ کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس صورت حال میں موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں کے ناراض لوگوں کو قومی اور سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احساس محرومی کے خاتمے اور معاشی بد حالی کے ازالے کیلئے مزید ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کئے جائیں تاکہ خدانخواستہ پھر کوئی برا دن نہ دیکھنا پڑے۔ 2014 میں 16دسمبر کو پشاور میں انتہائی درد ناک اور ناقابل فراموش سانحہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو درد و الم میں مبتلا کردیا۔ مستقبل کے معمار اور نونہالان وطن کو ظالم دہشت گردوں نے خاک و خون میں نہلادیا۔ اس ظالمانہ کارروائی میں بے جرم و خطا معصوموں کی خون میں لتھڑی ہوئی لاشوں کے ڈھیر اب بھی تصور میں لائیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ماؤں نے انہیں نہلا دھلا کر سکول یونیفارم میں حصول علم کیلئے درسگاہ بھیجا تھا۔ گھر کی دہلیز پر ان کی واپسی کی منتظر ماؤں کو کیا پتہ تھا کہ اب ہمیشہ کیلئے جدائی کا داغ دے کر رخصت ہو چکے ہیں۔ اے ظالم دہشت گردو! ان بچوں کا قصور کیا تھا کہ تم نے انہیں تہہ تیغ کر کے سیکڑوں ماؤں کے سینے چھلنی کردیئے۔ 16 دسمبر 2014ء کا دن آرمی پبلک سکول پشاور کے اس سانحے کی وجہ سے ایک ناقابل فراموش دن ہے۔ اس دن پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ماؤں نے غم وچاندوہ کے بے شمار آنسو بہائے۔ ان پھول جیسے بے گناہ بچوں کو دہشت گردوں نے وحشیانہ طور پر قتل کیا۔ سول سے فوج تک اور دانشور سے عام شہری تک نے وحشت اور ظلم کے انتہائی سفاک منظر کو آشکار آنکھوں سے دیکھا۔ لگتا ہے کہ معصوم بچوں پرگولیوں کی بوچھاڑ کرنے والے انسان نما درندوں کے دل پتھر ہوچکے تھے ۔آخر ان بچوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ شہدا کے والدین آج بھی صدمے سے نڈھال ہیں، جن والدین کے بچے بچ گئے وہ بھی اس ہولناک دن کوفراموش نہیں کرسکے، دہشت گردوں نے اسکول پرحملہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی لیکن قوم کے حوصلے پست نہ ہوئے۔پاکستانی قوم نے اس المیہ کے بعد نئے عزم کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ دہشت گردوں نے مستقبل کے معماروں کونشانہ بنا کرملک اورسیکورٹی اداروں کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کی لیکن ملک بھرمیں جاری تعلیمی سرگرمیاں ملک دشمنوں کو پیغام دے رہی ہیں کہ قوم کےعزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، شہداکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یوم حساب بہت قریب ہے۔۔ اے ظالموں! تمہیں ظلم و ستم کے اس سانحہ کے ایک ایک نشان کا جواب دینا ہوگا۔
تازہ ترین