• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حاکم وقت نے اپنے ایک کم تر ملازم کو حکم دیا کہ مجھے شہر کا خوبصورت ترین بچہ چاہئے۔ دوسرے دن ملازم حاکم وقت کے پاس آیا تو گود میں ایک میلا کچیلا بچہ تھا جس کی ناک بہہ رہی تھی، اس ملازم نے بچہ حاکم وقت یعنی بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ بادشاہ نے میلے کچیلے بچے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ کون ہے اور اسے کہاں سے لائے ہو؟ملازم نے کورنش بجا لاتے ہوئے جواب دیا۔ مائی باپ یہ بچہ میں اپنے گھر سے لایا ہوں اور یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ مجھے پورے شہر میں اس سے زیادہ پیارا اور خوبصورت بچہ نہیں ملا۔
یہ درست ہے کہ ہر انسان کو اپنا بچہ بہت پیارا لگتا ہے، وہ کتنا ہی گندا، مندا یا میلا کچیلا کیوں نہ ہو ، کسی برٹش گورے کے گھر میں پرورش پانے والا نرم و گداز کیوں نہ ہو یا افریقہ کے قحط زدہ علاقے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ غریب ترین بچہ ہو ، جنگل کی شیرنی کا بچہ ہو یا گھر میں پائی جانے والی کمزور مرغیوں کے چوزے ہوں، محلوں اور بڑے گھروں کے پالے ہوئے صحت مند بچے ہوں یا چھونپڑیوں میں سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے معصوم۔ میک ڈونلڈ، کے ایف سی یا مسٹر کوڈ پر کھانے پینے والے صحت مند بچے ہوں یا ڈھیروں کی گندگی سے رزق تلاش کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے معصوم بچے ہوں ہر کسی کو اپنا ہی بچہ پیارا لگتا ہے۔وہ بچہ اپنے گھر میں چاہے ہرچیز، خوراک یا ضروریات زندگی سے محروم ہو لیکن اس کے والدین کسی دوسرے کویہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس کے بچے پر تشدد کرنا تو درکنار اسے کوئی سخت الفاظ بھی کہیں، ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ درددل رکھنے والے دوسروں کے بچوں کو تکلیف پر بھی رنجیدہ ضرور ہو جاتے ہیں، وہ دوسروں کے بچوں کے درد اور تکلیف کو ضرور محسوس کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ کہیں اس کے اپنے بچے بھی کبھی اس درد اور تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائیں، وہ ان کی مدد کو بھی تیار ہوجاتا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں ایک جنونی نوجوان نے فائرنگ کرکے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کو ہلاک کردیا۔اس واقعہ نے نہ صرف پورے امریکہ کو ہلا کے رکھ دیا بلکہ پاکستان سمیت ساری دنیا میں درددل رکھنے والے افسردہ ہوگئے امریکہ کے قومی پرچم کو سرنگوں کردیا گیا۔ صدر اوباما خود ان بچوں کی تعزیتی تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، ان چھوٹے چھوٹے پیارے معصوم بچوں کیلئے ہر دل افسردہ تھا اور ظاہر ہے ان معصوم بچوں کے ماں باپ پر کیا گزری ہو گی یہ اولاد رکھنے والے ماں باپ ہی جان سکتے ہیں؟پاکستان بھی گزشتہ کئی سالوں دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے تیس ہزار سے زائد افراد کی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں دہشت گردی کے ان واقعات نے عورتوں اور بچوں کوبھی نہ بخشا ،کیونکہ بندوق سے نکلی ہوئی گولی ہو یا فائر کیا ہوا گولا ،کسی خودکش بم کا دھماکہ ہو یا کسی ڈرون طیارے سے فائر کیا ہوا میزائل ، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا نشانہ کون بنے گا؟اس میں کوئی بے گناہ فرد مارا جائے کہ کوئی پردہ دار یا بزرگ خاتون یا اس میں کوئی بوڑھا شخص نشانہ بن جائے گایا پھر ماں کی انگلی پکڑ کر گزرنے والا معصوم بچہ لقمہ اجل بن جائے گا اور ان واقعات میں جب معصوم لاشیں نظر آتی ہیں یا پٹیوں میں لپٹے بچوں کے معصوم جسم تو انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ آئیں ساری دنیا کے معصوم بچوں کے لئے ایسی دنیا ترتیب دیں جہاں ان کے جسم کے چیتھڑے نہ اڑیں، جہاں ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، ریشم جیسے بال اور نرم و گداز جسم زخمی نہ ہوں اور ان کے جسموں سے خون نہ بہے کیونکہ سب بچوں کے خون کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔
تازہ ترین