• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف آئی اےسائبر ونگ سے کوئی مطمئن نہیں،وزیراطلاعات

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایف آئی اےکےسائبر ونگ سے کوئی مطمئن نہیں ، ٹوئٹر نے بھی کہا ہے کہ سب سے زیادہ شکایات پاکستان سے جنریٹ ہوئیں، فیس بک نے تو سب سے زیادہ اکاؤنٹس بھی ہماری ہی درخواست پر بلاک کئے یہ تمام اکاؤنٹس وہ تھے جو نفرت انگیز تقریر پھیلارہے تھے اس میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جوآزادی اظہار رائے کے زمرے میں آتاہو، خادم رضوی کے خلاف کارروائی اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں کہا کہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان میں سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا ہے،بڑے پیمانے پر شکایات ٹوئٹر اور فیس بک کو بھیجی جارہی ہیں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ کے سوال کہ آپ ایک نئی باڈی بنانے کی بات کررہے ہیں جس میں پیمرا بھی ہو دوسرے معاملات ہوں، یہ قانون اگست 2016ء میں بنا، ستمبر 2016ء میں پہلی شکایت آگئی ابھی تک پینڈنگ ہے، سائبر کرائم ونگ اتنا سرگرم نہیں ہے، لوگوں کی شکایات اس طریقے سے نہیں سنی جاتیں، آپ اسی کو کیوں نہیں مضبوط کردیتے، کیوں آپ نے نئی باڈی بنانی ہے، اس میں جو اتھارٹی ہے اسی کو مضبوط کیوں نہیں کررہے؟وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہاکہ وہ میری فیلڈ نہیں ہے، وہ کرائم کا ایکٹ آتا ہے جو وزارت داخلہ کا پرابلم ہے، وہ ایک criminal jurisdiction ہے، ہماری jurisdiction ریگولیٹری کی ہے ، ہم ریگولیٹ کرسکتے ہیں اس کو کرمنل تحقیقات نہیں کرسکتے، اسی لئے ابھی تک کی باڈیز غیرفعال ہیں، آپ نے بالکل درست پوائنٹ آؤٹ کیا ہے، نہ صرف پیکا غیرفعال ہے بلکہ ایف آئی اے کے اندر بھی provisions غیرفعال ہیں، اگر آپ ایف آئی اے کا سائبر ونگ دیکھیں تو یقینی طور پر اس سے کوئی مطمئن نہیں ہے جب تک اس کو بہتر نہ کیا جائے، یہ وہ معاملہ ہے جسے وزارت داخلہ دیکھے گی، ہمیں خوشی ہے کہ حال ہی میں ایک دو وقعات ہوئے جس میں عالمی بڑے کھلاڑیوں ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، ہمارا مدعا incitement to hate کا ہے، ہم right of free speech کو اس میں نہیں لانا چاہتے ، ہم صرف incitement to hate اور یہ جو ختمِ وغیرہ کے معاملات ہیں یہ ہمارا concern ہے۔ شاہزیب خانزادہ: مگر پھریہ کہ تنقید نہ ہو کہ حکومت صرف انہی کے لئے ٹوئٹر اور فیس بک سے رابطہ کرتی ہے جو اس پر تنقید کررہے ہوں یا ریاستی اداروں پر کررہے ہوں اور پھر تنقید کا معیار کیا ہے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے، اور جو اپنے مقامی قوانین ہیں ادارے ہیں، ظاہر ہے وزیراعظم کے ماتحت ہے اور آپ وزیراطلاعات ہیں ، وہ بھی ایکٹو ہو کر جو شہریوں کی شکایات ہیں اس کو بھی ایڈریس کرنے کیلئے کچھ ہو؟ فواد چوہدری: آپ کی بات بالکل صحیح ہے لیکن جو آپ نے دیکھا ہوگا ٹوئٹر نے بھی کہا ہے کہ سب سے زیادہ شکایات پاکستان سے جنریٹ ہوئیں، فیس بک نے تو سب سے زیادہ اکاؤنٹس بھی ہماری ہی درخواست پر بلاک کیے یہ تمام اکاؤنٹس وہ تھے جو hate speech پھیلارہے تھے اس میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو right of free speech کے زمرے میں آتا ہو، آزادیٴ اظہار رائے تو آپ یہی لیتے ہیں کہ آپ وزیراعظم پر تنقید کرسکیں، آپ کابینہ پر تنقید کرسکیں، آپ پالیسیوں پر تنقید کرسکیں تو اس پر کوئی پرابلم نہیں ہے وہ کھلا ہے، لیکن incitement of hate کا جو معاملہ ہے اس کے اوپر ایکشن ہوا ہے اس کے علاوہ فی الحال کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ شاہزیب خانزادہ: لیکن incitement of hate کیلئے پاکستان میں بھی تو قوانین ہیں، خادم رضوی کا اکاؤنٹ ٹوئٹر سے بلاک کرالیں مگر پاکستان میں قوانین کے تحت بھی تو hate speech پر ان کیخلاف کارروائی کی جاسکتی تھیں، اس میں تو حکومت اس طریقے سے آگے نہیں بڑھ رہی؟ فواد چوہدری: ان پر تو اس سے بڑے مقدمات قائم ہیں اور انہیں اس کا سامنا کرنا ہوگا، وہ معاملہ پیچھے رہ گیا ہے کہ ان پر hate speech کا مقدمہ بننا چاہئے یا نہیں بننا چاہئے، وہ تو ظاہر ہے جب ان کے اوپر 124 لگ گئے ہیں تو وہ ساری چیزیں اس کے اندر کور ہوجاتی ہیں، میرے خیال میں ان کے خلاف جوایکشن ہے وہ satisfactory طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے، پہلی دفعہ ہے کہ طاقتور لوگوں کے اوپر ہاتھ ڈالا گیا ہے،چاہے وہ میڈیا کا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ کا معاملہ ہو انشاء اللہ تعالیٰ اس کو قطعی انجام تک پہنچانا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: مگرجو معاملہ ہے کہ آزادیٴ اظہار رائے بھی متاثر نہ ہو اور ساتھ میں شہریوں کیخلاف بھی کوئی غلط معلومات یا نفرت پھیلارہا ہے اس کے خلاف بھی کارروائی ہو، اگر یہ فیصلہ کہ کون یہ کررہا ہے حکومت یا بیوروکریسی کے پاس آپ دیدیں گے تو پھر معاملہ کیسے determine ہوگا کہ اپنے اوپر تنقید پر صرف سیاسی مخالفین کے خلاف کاروائی نہیں ہورہی، پیمرا میں بھی ایک کونسل آف کمپلینٹ ہے اس میں independent لوگ ہوتے ہیں ، اس طریقے سے آپ کریں کہ وہ determine کریں کہ اصل میں جو شکایت آئی ہے وہ کس حد تک درست شکایت ہے اور کس قسم کی کارروائی ہونی چاہئے؟ فواد چوہدری: جی، جی بیلنس ہی یہ ہے، کامیابی ہی تب ہے کہ اتفاق رائے سے بنے اسی لئے میں نے اپنا پیپر پیپلزپارٹی کو بھی بھیجا ہے، پی ایم ایل این کوبھی بھیجا ہے اور میڈیا کی جو نمائندہ باڈیز ہیں ان کو بھی بھیجا ہے، میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ اس پر اپنا پوائنٹ آف ویو لیں تاکہ ہم اس کو انکارپوریٹ کرسکیں ، جو بات آپ کہہ رہے ہیں وہ بالکل صحیح ہے، ہمیں اس کو ایسے لے کر آناہے کہ بیلنس رہے، یہ نہ ہو کہ کل یہ باڈی اتنی طاقتور ہوجائے کہ یہ right of free speech کو بھی hurt کرے، یہی تو ایک معاملہ ہے جس کو ہم نے بیلنس کرنا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں کہا کہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان میں سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا ہے،بڑے پیمانے پر شکایات ٹوئٹر اور فیس بک کو بھیجی جارہی ہیں، مگر کیا حکومت نفرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے والوں کیخلاف بھی ایکشن لے رہی ہے یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعہ صرف تنقید کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی زبان بندی کی کوشش کی جارہی ہے،اس سال کے ابتدائی چھ ماہ میں تین ہزار اکاؤنٹس رپورٹ کیے گئے، آخری چھ ماہ کی رپورٹ آنا باقی ہے جس میں توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے، حکام نے ٹوئٹر سے کہا ہے کہ یہ اکاؤنٹس مبینہ طور پر نفرت پھیلارہے ہیں، تشدد پر اکسارہے ہیں اس لئے ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔اس حوالے سے حال ہی میں ایک سنجیدہ کوشش سامنے آئی جب ٹوئٹر نے تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی کا اکاؤنٹ معطل کردیا، اس کے علاوہ حکومت نے سوشل میڈیا پر جعلی خبرو ں کے حوالے سے ٹوئٹر پر fake news buster کے نام سے اکاؤنٹ بنایا مگر اس کی اپنی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں، اب تک اس اکاؤنٹ سے صرف حکومتی خبروں کی ہی وضاحت سامنے آرہی ہے وہ بھی درست نہیں ہے، آئی جی اسلام آباد کے تبادلہ سے اعظم سواتی کا تعلق جوڑنے کی خبر کو اس اکاؤنٹ نے جعلی قرار دیا مگر بعد میں یہ خبر درست ثابت ہوئی، کچھ دن پہلے فیس بک کا وفد پاکستان آیا، وزیراطلاعات اور وزیر برائے انسانی حقوق سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن کوئی اہم پیشرفت سامنے نہیں آئی، اہم بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے اکاؤنٹس جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں انہیں ٹوئٹر کی طرف سے پیغامات مل رہے ہیں کہ وہ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں، اگر انہوں نے یہ خلاف ورزی برقرار رکھی تو ان کا اکاؤنٹ معطل کردیا جائے گا، ان پیغامات سے لگ رہا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی ایکشن ہورہا ہے مگر اس حوالے سے تفصیلات واضح نہیں ہے، کچھ دن پہلے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹ کر کے کہا تھا کہ انہوں نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے پوچھا ہے کہ کیا خادم رضوی کا اکاؤنٹ معطل ہوسکتا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ ٹوئٹر نے کارروائی کرنے سے منع کردیا ہے مگر پھر بعد میں ٹوئٹر نے خادم رضوی کا اکاؤنٹ معطل کردیا، ایک طرف ٹوئٹر اور فیس بک سے اکاؤنٹس بند کرنے کی درخواست ہورہی ہے، کم تعاون کی شکایت ہورہی ہے مگر حکومت چاہے تو سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی کرنے والوں کیخلاف خود بروقت ایکشن لے سکتی ہے، وہ لوگ جو ملک میں موجود ہیں نفرت انگیزی پھیلاتے ہیں اگر ٹوئٹر اور فیس بک ان کے اکاؤنٹ بند کرنے میں دیر بھی کرے تو حکومت ایکشن لے سکتی ہے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے، وہ لوگ جن کی شناخت واضح ہے جو نفرت اور مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں، غداری کے الزامات لگاتے ہیں انہیں پاکستان میں پاکستان کے قوانین کے تحت گرفت میں لایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ سوشل میڈیا ریگولرائز کیا جائے گا، تحریک انصاف کی حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے جارہی ہے، پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کو ایک نئی اتھارٹی قائم کی جائے گی، پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کرے گی، یہ تاثر ہے کہ سوشل میڈیا بے لگام ہے، یہاں پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں، بے بنیاد الزام تراشی ہوتی ہے، کردار کشی کی جاتی ہے،غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں، نفرت انگیزی ہوتی ہے، پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور جعلی خبروں کی بھرمار ہے، سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس کی روک تھام ضروری ہے، سوشل میڈیا کو ریگولیٹ ہونا چاہئے یہ بات کی جارہی ہے مگر کیا اس کے لئے کوئی نئی اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے یا پہلے سے موجود قوانین کافی ہیں، وہ قانون ہے سائبر کرائم لاء جسے پاکستانی الیکٹرانک کرائم ایکٹ کہا جاتا ہے، اگر پہلے سے موجود قوانین میں کوئی خامی ہے تو اس میں اتفاق رائے سے کوئی ترمیم لائی جائے، مگر قانو ن کی موجودگی میں ایک نئی اتھارٹی کا قیام سوالات اٹھارہا ہے کیونکہ اب تک کسی بھی ملک میں مرکزی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نہیں بنائی گئی، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ کو بڈاپسٹ کنونشن کی دی گئی گائیڈ لائنز کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے، حکومت جو نیا قانون لانے کی باتیں کررہی ہے وہ قانون بھی انہی گائیڈ لائنز سے ہٹ کر نہیں ہوسکتا، نئے قانون کو بھی کنونشن کی گائیڈ لائن پر عمل کرنا ہوگا تو پھر پاکستان یہ تجربہ کیوں کرنے جارہا ہے، اب تک حکومت یہ بھی واضح نہیں کرسکی کہ اسے موجودہ قانون سے مسئلہ کیا ہے، طویل بحث اعتراضات خدشات اور الزامات کے بعد اگست 2016ء میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز بل پہلے قومی اسمبلی پھر سینیٹ سے منظور ہو کر ایکٹ بنا، اس میں سوشل میڈیا سے متعلق جرائم، ان کی تحقیقات اور سزاؤں کا تعین کیا گیا، اس قانون کے تحت قانون پر عمل کرانا اور پراسیکیوشن کی ذمہ داری ریاست کی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس ایکٹ پر عمل کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں، ن لیگ کے دور میں یہ پاس ہوا اور قانون بنا مگر اس دور میں بھی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں، یہ حکومت آئی ہے جو نئی اتھارٹی بنانے کا کہہ رہی ہے مگر اس قانون پر سنجیدہ کوشش نہیں کررہی ہے، مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جارہے، اب تک ایف آئی اے کا سائبر کرائمز ونگ سوشل میڈیا سے متعلق شکایات دیکھ رہا ہے، اس کی صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

تازہ ترین