• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لوگ فطرت کی صحت و توانائی کی تاثیر سے واقف ہیں ان کے لیے شجر و پودے، نباتات، پھول،سبزہ اور چرند پرند لازمی جزو ہیں۔زمانہ جس رفتار سے ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، وہاں اب کچے گھروندے بھی سیمنٹ بلاکس سے بن رہے ہیں اور فن تعمیر کے تمام لوازمات موجود ہیں۔ لیکن نہیں ہوتا تو اردگرد کے درختوں، پودوں، پرندوں ،جانوروں کا احساس، جو ہمارے دھانی و شفق رنگ سے گلنار ہوئے جاتے ہیں۔ اب جب عالمی گرمائش اور آلودگی کے اثرا ت جسم و جان سے لہو نچوڑنے کو ہیں تو ہمیں ماحول اور فطرت کی یاد ستارہی ہے۔ پوری دنیا میں ماحول دوست مکان بنانے کا ماڈل پروان چڑھ رہا ہے ۔گرین آرکیٹیکچر کا نیا عزم ’’گرین سٹیز،گڈ ہیلتھ‘‘اس وعدے کو وفا کرنے کی گھڑی ہے،جسے بھلاکر ہم نے جنگلات کا صفایا کر دیا۔ تاہم، اب اگر ہم جاگے ہیں تویہ خوش آئند امر ہے۔

شہری فطرت کی معاشی و طبی قدر و قیمت

ہمیں شہری جنگلات، سبزہ زار اور درختوں کی صورت میں اپنی شہری فطرت کی معاشی قدر و قیمت سمجھنی ہوگی۔درختوں کے دامن میں صحت پر جو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں،ان کی روشنی میں فطرت کا ساتھ بیماری و بھوک سے نجات دلاتا ہے۔شہروں کاباسی ہونے کے بعد ہم نےدرختوں کو نظر انداز کردیا ہے اور جسے ہمارے معاشرے میں اہم ہونا چاہیے تھا،اسے ہم نے کاٹنا شروع کردیا ہے۔ ہماری فرنیچر کی صنعت درختوں کی مرہونِ منت ہے، جس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہم نے دھڑا دھڑ درخت کاٹنے تو شروع کیے لیکن درخت لگانے سے لاتعلق رہے۔ ہم نے ایک تناور درخت کے بدلے دس درخت نہیں لگائے،جس کا احساس موجودہ حکومت کو بھی ہے۔ انتہائی مختصر جگہ اور سازگار زمین و ماحول کے مطابق درختوں کو گھر کے آنگن، صحن، کاریڈور کا حصہ بنا کر ہر سال پھل حاصل کیے جاسکتے ہیں،اس طرح گھریلو کاشت کاری کا شوق بھی پروان چڑھے گا۔ ایسا ہی اہتمام باغیچے کو سجانے کے لیےبھی کیا جائے۔ گلاب، چنبیلی،سورج مکھی، دن کا راجا، رات کی رانی، امر بیل جیسے پھول گھر کو معطر کردیں گے۔ سبز پاکستان کو ممکن بنانے کے لیےحکومت و عوام کا اتحاد اہم ہے۔مغرب کے شہروں میں انتہائی عالیشان گھر میں کسی درخت کو اُگانا بھی فن تعمیر کا ایک نیا انداز ہے، جس میں درخت کو کاٹے بغیر مکان تعمیر کرنے کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ کسی بھی گھر کی مضبوط تعمیر اور ساتھ درختوں کا لگانا فطرت کو گھر میں لانے کا ایک انداز ہے اور فطرت کے اس تحفے کو تعمیرات کا حصہ بنانے سے بلڈنگ کا ڈیزائن بذاتِ خود فن تعمیرکا نادر نمونہ بن جاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں صحت و توانائی سے پیار عود کر آیا ہے۔ ہمیں بھی معاشی پالیسی کے ذریعے اس خواب کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ تحفظ ماحولیات کی ہماری بھی ذمہ داری بھی ہے۔

درختوں میں چھپی صحت و توانائی

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بڑے اسپتالوں میں درختوں اور پارکس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے،تاکہ مریض کو درخت سےآکسیجن ملتی رہے۔درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرکے وسیع مقدار میں آکسیجن خارج کرتا ہے،جو پھیپھڑوں کے لیے زندگی ہے۔ جن شہروں میں درخت نہیں ہوتے، وہاں گویا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ درخت آلودہ فضا کو اپنے سینے میں بھر کر ہمیں صحت افزا آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایک درخت 18لوگوں کو آکسیجن مہیا کرتا اورزیرِ زمین پانی کو اپنی جڑوں میں محفوظ رکھتا ہے۔

درختوں کو کاٹے بغیر بنائے جانے والے مکانات

شہری انفرا اسٹرکچر کو توسیع دینے اور ڈیزائن کی تبدیلی میں پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میںتاریخی درختوں کا جو قتلِ عام ہوا، اس کا خمیازہ ہمیں آنے والے کم از کم10سال تو برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی میں بارشوں میں کمی اور گرمی میں اضافہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔تاہم، دنیا میں کچھ ایسے بھی ماہرین تعمیرات ہیں، جنہوں نے درخت کاٹنے سےانکار کردیا ہے۔ انھوں نے درختوں کو ڈیزائن کا حصہ بنا کر دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ جاپان کے شہر تاچی کاوا میں فیوجی کنڈر گارٹن اسکول میں درخت کے اردگرد پلے گراؤنڈ بنایا گیا ہے۔ امریکی ریاست نیوجرسی کا نیلسن ٹی ہاؤس،ترکی کا سرہان بے،فرانس کا Casa Vogue، امریکا کا لیک ویو ریذیڈنس اورٹری ہاؤس لاج ریزورٹس درخت کے ساتھ آرکیٹیکچرل ڈیزائن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی عمارتیں بنائی جائیں، جن سے گیسوں کا اخراج کم ہوتا ہو، توانائی اور قابل استعمال پانی کی بچت ہوتی ہو، ان کی دیواروںمیں زندگی نظر آئے یعنی دیواریں پودوں ، پھولوں اوربیلوں وغیرہ سے بھری ہوں اور توانائی کے ذرائع تجدید کے قابل ہوں ۔ اس سے ہماری زمین کو بھی فائدہ ہوگا اور ہمیں بھی سماجی اور مالیاتی فوائد حاصل ہوں گے۔

تازہ ترین