• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت جس تیزی سے رو بہ زوال ہے اس کا ایک تازہ مظہر مالیاتی درجہ بندی کا تعین کرنے والے تین بڑے اداروں میں سے ایک فچ ریٹنگ ایجنسی کی جانب سے پاکستان کی قرض لینے کی درجہ بندی کو بی سے گھٹا کر بی نیگیٹو کر دیا جانا ہے۔ اس اقدام کے بنیادی اسباب میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں متواتر کمی، خراب مالی صورتحال اور انتہائی بھاری واجب الادا رقم کے امور شامل ہیں۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کیلئے کامیاب مذاکرات بیرونی مالیاتی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی معیشت کے بارے میں ریٹنگ ایجنسی کے تازہ فیصلے سے ایک ہی دن پہلے موڈیز انویسٹرز سروس جیسی ممتاز عالمی مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی پاکستان کے کم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر اور بڑھتے ہوئے قرضوں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی ریٹنگ کے بی تھری نیگیٹو کر دیے جانے کی تصدیق کر چکی ہے، تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹیٹ بینک کی سر توڑ کوششوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ فچ ریٹنگ ایجنسی کے معاشی اندازوں کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی عدم موجودگی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کا حالیہ مالی سال کے اختتام تک کم ہوکر محض سات ارب ڈالر رہ جانے کا خدشہ ہے۔ ایجنسی کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے جون2018میں ختم ہونے والے مالی سال میں قرضوں کی شرح 72.5فیصد رہی تاہم منفی حالات کے باعث رواں مالی سال میں یہ شرح75.6فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے جبکہ مہنگائی کی شرح بھی گزشتہ سال کے چار فیصد کے مقابلے میں اس سال سات فیصد تک پہنچے گی۔ ریٹنگ ایجنسیوں کے فیصلے اقتصادی ماہرین کے مطابق ملکی خود مختاری میں بیرونی مداخلت، قرض کو برداشت کرنے اور عالمی سطح پر مقابلے کی صلاحیت میں کمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ قومی معیشت کی یہ مسلسل ابتری پاکستانی عوام کیلئے حیرت انگیز ہے کیونکہ محض چھ ماہ پہلے مئی کے آخری دنوں میں موڈیز کی رپورٹ میں سی پیک کے حوالے سے مضبوط معاشی سرگرمیوں کے آغاز کی توقع ظاہرکرتے ہوئے پاکستان کی کریڈٹ پروفائل کو بی تھری اسٹیبل میں شامل کرنے کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد وزیراعظم کے دوست ممالک کے دوروں کے نتیجے میں وفاقی وزیر خزانہ نے قوم کو معاشی بحران کے خاتمے کی خوش خبری سنائی تھی لیکن ڈالر کی قیمت میں ڈرامائی طور پر غیر معمولی اضافے نے معیشت پر ازسرنو قائم ہوتے اعتماد کی فضا درہم برہم کر دی۔ وزیراعظم نے روپے کی قدر میں تاریخی کمی کے اس اقدام سے لاعلمی ظاہر کی مگر وزیر خزانہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے کسی دباؤ کے بغیر حکومت نے اپنے طور پر قومی مفاد کے تقاضے کے تحت نہ صرف روپے کی قدر میں کمی کی بلکہ بجلی اور گیس کے نرخ بھی کسی کے مطالبے کے بغیر بڑھائے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم سے امدادی پروگرام کے حصول کیلئے پچھلے دنوں ہونیوالے مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کے بعد کہا گیا تھا کہ پیکیج کیلئے ہم آئی ایم ایف کے سخت مطالبات ماننے کیلئے تیار نہیں تھے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام اقدامات مالیاتی ادارے کی فہرست مطالبات میں شامل تھے، اس لئے اگر آئی ایم ایف کی دستگیری ہی معاشی صورتحال کو فوری طور پر سنبھالنے کیلئے ضروری ہے تو اب حتی الامکان اس کا پیکیج جلد از جلد حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے اس منفی صورتحال میں ایک حوصلہ افزا خبر سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کا قومی خزانے میں پہنچ جانا ہے۔ وزیر خزانہ حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی نوید بھی سنا چکے ہیں۔ چین سے بھی مالی امداد کے بجائے ٹیکنالوجی کی منتقلی کیساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے ہیں۔ اس سمت میں تیز رفتار عملی پیش رفت یقینی طور پر قومی معیشت پر اعتماد کو مستحکم کر سکتی ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔

تازہ ترین