• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے کا امن،عدل و انصاف کی ہی مضبوط بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین مبین نے قیام عدل کو لازم قرار دیا۔ قرآن حکیم فرقان حمید میں اس حوالےسے واضح اور بے شمار احکامات ہیں،نبی اکرمﷺ نے ریاست ِ مدینہ کے قیام کے بعد قرآنی احکامات کو نافذ کرکے اسے مثالی ریاست بنا دیا۔ خلفائے راشدینؓ کے ادوار بھی ایسی مثالوں سے مزین رہے۔ عصرحاضر میں جن ملکوں کے امن، ترقی اور خوشحالی کی ہم مثالیں دیتے ہیں ان ممالک میں جو چیز سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے، وہ ہے قانون کی بالادستی، کوئی بھی چھوٹا بڑا ان ممالک میں قانون سے ماورا نہیں۔ ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہم نے قانون و انصاف کے حوالے سے غفلت برتی اور افراد قانون سے خود کو بالاتر خیال کرتے ہوئے منہ زور ہوتے چلے گئے۔ ہمارے عدالتی نظام، جو نوآبادیاتی دور کی دین ہے، میں پائی جانے والی خامیوں کا تذکرہ خود ہماری اعلیٰ عدلیہ تک کرچکی ہے۔ ایوانِ بالا میں جمعہ کے روز یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں۔ جس پر وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے بتایا کہ مقدمات دو سال میں نمٹانے کا بل لا رہے ہیں، اپوزیشن نے بھی اس سلسلے میں تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بیشک انصاف میں تاخیر انصاف سے صرف ِ نظر کے مترداف ہے۔ نچلی سطح کی عدالتوں میں بھی ایسے بے شمار مقدمات موجود ہیں، جو سماعت کے منتظر ہیں۔ خاص طور پر دیوانی مقدمات کے بارے میں تو یہ بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کو دیوانہ کرکے رکھ دیتے ہیں، اسلئے کہ دادا کا مقدمہ پوتے کے دور میں جا کر فیصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کی جانیوالی کوئی بھی پیش رفت جو عوام کیلئے آسانی کا سبب بنے، لائق ستائش ہے۔ حکومت اس بل پر کام کرچکی ہے اور اپوزیشن بھی اس حوالے سے قانون سازی میں معاونت پر تیار ہے تو اس ضمن میں کسی بھی قسم کی کوئی تاخیر روا نہیں رکھی جانی چاہئے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین