• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل وخار … سیمسن جاوید
ایسے وقت میں جب حکومت پاکستان اور پاکستان کی اعلیٰ عدالت انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کئی موثر اور جرأت مندانہ اقدام کر چکی ہے توسپریم کورٹ نے مذہبی انتہا پسند انہ سر گرمیوں کے خلاف فیصلے لے کر انتہا پسند سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ایسے میں امریکہ نے پاکستان میں مذہبی آزادی کی پامالی کا الزام لگا کر پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اس بلیک لسٹ میں برما، چین، ایریٹریا، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔منگل کو جاری بیان میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ 28نومبر کو کیا۔ وہ تمام ممالک جہاں مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قانون 1998 کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں یا جہاں ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے منظم طریقے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاںکی جاتی ہیں اور یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ پاکستان نہ تو حقانی نیٹ ورک ختم کرسکا ہے اور نہ ہی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر پایا ہے اوریہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے بلکہ انہیں پناہ بھی فراہم کرتا ہے اور امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقلیتوں سے نا روا سلوک رکھنے پر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے یہ اقدام اٹھائے گئے ہیں تاکہ پاکستان مذہبی آزادی کے معاملے پر اصلاحات کرتے ہوئے اقلیتوں کو مزید تحفظ فراہم کرے۔ مذہبی آزادی کے بغیر ملک میں خوشحالی نہیں آتی جب کہ ڈاکٹر شیریں مزاری برائے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے امریکہ کے اس اقدام کو مضحکہ خیز اور سیاسی دباؤ قرار دیاہے۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند نتظیموں کے لئے لمحہ ِ فکریہ ہے اور ان تمام بیرون ملک رہنے والے کچھ پاکستانیوں کیلئے بھی جو انگلینڈ جیسے لبرل ملک میںرہتے ہوئے بھی تعصب اور مذہبی فوبیا سے ابھی تک باہر نہیں نکل پائے اور اپنے موقف کو تقویت دینے کے لئے امریکہ ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک کی مثالیں پیش کرنا شروع کردیتے ہیںکسی بے گناہ کو اگر انصاف ملتا ہے تو اس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ بیرون ملک سے مالی مدد یا دباؤ میں آکر ایسا کیا گیا ہے مذہی انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے وہ انصاف پر مبنی فیصلوں کو بھی تعصب کے ترازو میں تولنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان میں موجود انتہا پسندی نے ہی دہشت گردی کا موقع فراہم کیا اور ملک میں لاکھوں بے گناہ جانوں کا نہ صرف ضیاع ہوا بلکہ ملک معاشی طور پر بھی کمزور ہوگیا اور دنیا بھر سے خارجہ تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ پاکستان آرمی نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ملک میں امن بحال کیا اور پاکستان کوفنانس ایکشن ٹاسک فورس(FATF ( میں بلیک لسٹ میں آنے سے روک لیا کچھ لوگ انگلینڈ میں بیٹھے بھی مذہبی فوبیا کو ہوا دینے میں مصروف ہیںجو نوشتہِ دیوار ہیں کہ اسلامک فوبیا یہاں بھی حالات خراب کر سکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک لبرل ملک میں جہاں کمیونٹی ، مذہب یا ملک کی بنیاد پر آپ کے ساتھ ناروا سلوک روا نہیں رکھا جاتا،ہماری سوچ بھی ایسی ہو اور ہمیں بھی پاکستان میں ایسے قانون اور رویوں کے فروغ کیلئے کام کرنا چاہئے اورایسے مساویانہ سلوک کی تائید کرنی چاہئے جس سے دقیانوسی سوچ اور معاشرے کی اصلاح ہو۔ اورپاکستان میں ایک ترقی پسند معاشرہ فروغ پا سکے، جہاں مذہبی اقلیتوں، غریب اور امیر سب کو یکساں انصاف اور حقوق ملیں،جہاں مذہب اور حکومتی امور الگ الگ ہوں ہر کوئی اپنے کام فرض سمجھ کر سرانجام دے کسی کو مذہب کی بنیادوں پر فوقیت حاصل نہ ہو۔ یہی ہدایت تمام الہامی کتب بھی فرماتی ہیں۔اگر ہم اپنی اپنی الہامی کتب پر عمل پیرا ہوتے تو آج امریکہ کو پاکستان میں ہونے والی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کوبنیاد بنا کر بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا موقع نہ ملتا بظاہر اس وقت پاکستان میں عوامی ،عدلیہ اور آرمی یعنی تینوں کی متنجن حکومت ہے جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔آرمی حکومت کو خبردار اور انتباہ کرتی رہتی ہے کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرلے ورنہ حکومت بدل بھی سکتی ہے۔مڈ ٹرم انتخابات اور قومی حکومت کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اسی طرح چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بھی انصاف دلانے اور قانون کی ترجمانی کرنے کے علاوہ بہت سارے معاملات کو درست کرنے کا بیڑا بھی اٹھا چکے ہیں۔وہ کرپشن کے خاتمے ،صاف پانی اور ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز جمع کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کر چکے ہیں۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے اور یو سی ایچ کی بحالی میں اپنا مثبت کردار ادا کرکے وہ مسیحوں کے دلوں میں بھی گھر کر چکے ہیں۔ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ جمع کرنے وہ گذشتہ مہینے انگلینڈ بھی تشریف لائے ہوئے تھے جو کئی لوگوں کو ناگوار گزرا۔ مخالفت کے باجود چیف جسٹس کی انگلینڈ آمد پر پاکستانیوں اور سکھ کمیونٹی کا ڈیم کیلئے دل کھول کر عطیہ دینا ایک مثال ہے انگلینڈ کے مختلف شہروں میں عطیات جمع کرنے کے سلسلے میں بڑے بڑے ریسٹورنٹس میں اہتمام کیا گیا۔مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ کرسچن کمیونٹی نے بھی بھرپور شرکت کی۔کرسچن کمیونٹی نے برمنگھم شہرمیں ہونے والی فنڈ مہم میں بھر پورشرکت کی۔ انہیں چرچ اور مختلف کرسچن تنظیموں کی طرف سے بھی عطیہ کی صورت میں رقوم پیش کی گئیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے والے مسیحیوں کے اہم مطالبات بھی پیش کئے ۔اوورسیز کرسچن کمیونٹی یوکے کا شمار برطانیہ کی متحرک تنظیموں میں ہوتا ہے ۔یاد رہے مندرجہ ذیل چھ مطالبات کو اوورسیز کرسچن کمیونٹی یوکے خاص اہمیت دیتی ہے ۔ 1۔5% تعلیمی اور ملازمت کے کوٹہ پر عمل درآمد کیا جائے۔ 2۔مینارٹیز کی لڑکیوں اورشادی شدہ خواتین کو جبراً تبدیلیِ مذہب سے روکا جائے۔3۔ مینارٹیز کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور یوحنا آباد کے مظلوم قیدیوں کو جلد انصاف فراہم کیا جائے۔ 4۔توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے۔5۔ پاکستان میں مشنری جائیدادوں کو تحفظ بشمول وائے ایم سی اے کراچی مشن کمپائونڈ برنس روڈ کراچی یونائیٹڈ کرسچن ہاسپٹل لاہور۔6۔تعلیمی سسٹم اور تعلیمی نصاب سے ایسا موادختم کیا جائے جس سے امتیاز ختم کرنے میں مدد ملے یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کے مسیحیوں نے ہمیشہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنابھر پور کردار ادا کیا اور کسی بھی مشکل وقت میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ہماری دعا ہے کہ جہاں انہوں نے کئی نا ممکن کام کئے ہیں وہاں وہ جاتے جاتے پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کیلئے ان مطالبات کی تکمیل کیلئے کام کر جائیں ۔خدا ان کا حامی و ناصر ہو۔
تازہ ترین